مسلم مجلس مشاورت: ایک مختصر تاریخ

نائب صدجناب حامد انصاری صاحب آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی گولڈن جبلی کے موقع پر ایک کتاب کی رونمائی کرتے ہوئے

AIMM-(Book)نام کتاب: مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ
مصنف : محمد علم ﷲ
تبصرہ: محمد غزالی خان
صفحات: 198
قیمت: 200 روپیہ
ناشر: Pharos Media & Publications Pvt Ltd, D-84 Abul Fazl Enclave – 1, Jamia Nagar, New Delhi-110025, India. Email: [email protected]

آپ کسی بھی مسلمان سے ملکی یا بین الاقوامی سطح پر ملت کی حالت زار پر بات کر لیجئے یہ شکوہ عام ملے گا کہ ہم متحد نہیں ہیں۔ اس بات کاگلا بھی کیا جائے گا کہ ایسا کوئی قائد نہیں جو اس منتشر و پریشان ملت کو ایک پلیٹ فارم پر لا سکے۔ انتشار کا الزام عام طور پر اغیار کی سازشوں کو دیا جاتا ہے۔ مگران سازشوں کو ناکام اور غیر موثر بنانے میں اپنی ممکنہ کوشش کی جانب کسی کا خیال نہیں جاتا۔ اس کی وجہ شاید قائدین ملت کی جانب سے بار بار نا امید کیا جانا ہو ۔ مگر اس رویے کو کیا کہا جائے کہ جو مثبت کام اس سلسلے میں کئے جا رہے ہیں ملت ان سے واقف ہی نہیں اورجن پلیٹ فارمز سے اس کام کو مزید موثر بنایا جا سکتا ہے ان میں شامل ہو کراپنا کردار ادا کر نے اور ان اداروں کو تقویت پہنچانے کیلئے ہم تیار نہیں۔

آزاد ہندوستان میں مسلمانان ہند کو متحد کرنے، انہیں ایک پلیٹ فارم پر لانے ، ان میں مثبت سوچ پیدا کرنے،اور اعلیٰ کردار کے ذریعے اکثریتی طبقے کی نفرتوں کو دور کرنے کی ایک سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش 1964 میں کی گئی تھی اور مسلم مجلس مشاورت کے نام سے ایک باضابطہ تنظیم قائم کی گئی تھی۔ تنظیم آج بھی موجودہے مگر نو جوان نسل اس کی تاریخ اور اس کی خدمات سے بالکل ناآشنا ہے۔ نو جوان نسل کیا ،تقریباً دو سال قبل میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب ایک دوست کے ساتھ بات کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ موصوف مسلم مجلس اور مسلم مجلس مشاورت دونوں کو ایک ہی تنظیم سمجھتے تھے ۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ کاش مسلم مجلس مشاورت کے شاندار کارناموں کی ایک غیر جانب دارنہ تاریخ دستیاب ہوتی جس میں وجود میں آنے کے کچھ عرصے بعد ہی اس کے غیر موثر ہونے اور کمزور پڑ جانے کی غیر جانب دارانہ وجوہات کا جائزہ بھی موجودہو۔

الحمد للہ ، محمد علم اﷲ صاحب نے یہ خدمت زیر تبصرہ کتاب میں بڑی خوبی کے ساتھاانجام دی ہے اور جن حالات اور نشیب و فراز سے یہ تنظیم گزری ہے اس کے بارے میں مکمل اور با آسانی دستاویزات کے دستیاب نہ ہونے کے باوجود جو کچھ مصنف کے ہاتھ لگا اسے نہایت ایمانداری اور غیر جانب داری کے ساتھ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانان ہند کی 1857 کی ناکام انقلابی کوشش اور اس کے بعد شروع ہونے والی تنزلی اور افتاد کا بھی مختصراً مگر جامع انداز میں جائزہ لیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ جس بحران سے ہندوستانی مسلمانوں کو 1947 ء میں گزرنا پڑا وہ چند باتوں کے لحاظ سے 1857ء کے بحران سے کم، مگر مجموعی طور پر اس سے کہیں زیادہ سخت تھا۔‘‘

1947 کے بعد مسلمانوں کے خلاف حکومت کا امتیازی رویہ ، ان کے خلاف مسلسل بڑھتی ہوئی نفرت ، مسلم کش فسادات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی زیادتیوں سے پریشان چند قائدین ملت، جن میں قاضی عدیل عباسی پیش پیش تھے، نے حالات سے نمٹنے اور کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کی غرض سے 1959 میں یوپی کے شہر بستی میں مسلم جماعتوں کا ایک اجلاس منعقد کیا۔

اس کے بعد 12-11جون 1961 ء کو مولانا حفظ الرحمٰن اور پروفیسر ہمایوں کبیر نے ڈاکٹر سید محمود کی صدارت میں ایک ’’مسلم کنوینشن‘‘ کا انعقاد دہلی میں کیا جسے حسب عادت حکومت نے پسند نہیں کیا۔ بقول سید صباح الدین عبدالرحمان : ’’ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ پنڈت نہرو نے مسلم کنونشن کے انعقاد کو نا پسند کیا، مگر انھوں نے ان کی نا پسندیدگی کا خیال کئے بغیر دہلی میں یہ کنونشن طلب کیا، وہ اس کے صدر منتخب ہوئے۔ ملک کی آزادی کے تیرہ سال بعد مسلمانوں کا یہ پہلا بڑا اہم اجتماع تھا، اس میں ان کا خطبہ صدارت بڑا پر زور تھا۔۔۔پورا ملک ان کے خطبے کے بعض ٹکڑوں سے گونج اٹھا جس میں انھوں نے فرمایا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ اس وقت مجرموں ، غداروں اور دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، ہندوستان میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنا ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔ ۔۔ان الزامات سے پنڈت جواہر لال نہرو پر ملے جلے اثرات مرتب ہوئے۔ ان کو اپنے پرانے رفیق کے اعتراضات سے دکھ پہنچا، اور وہ ڈاکٹر صاحب سے خفا ہوئے، مگر ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ اس کے ساتھ پنڈت جی کو یہ بھی کہنا پڑا کہ اگر چہ مسلمانوں کے دوسرے درجے کے شہری ہونے کی بات کو میں غلط سمجھتا ہوں ، مگر جب سید محمود جیسا شہری کہہ رہا ہے تو ہمیں سوچنا چاہئیے۔ یہ شرم کی بات ہے کہ اس طرح کاخیال مسلمانوں میں ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے پید ا ہو رہا ہے۔‘‘

مگر بدقسمتی سے یہ کنونشن بھی سازشوں اور اختلافات سے پاک نہ رہ سکا جس میں مولانا ابوللیث اصلاحی کو اس بنا پر نظر انداز کیاگیا کیونکہ حکوت کے نزدیک جماعت اسلامی ’’فرقہ پرست‘‘ اور ’’ملک دشمن ‘‘ ہے ۔ مولانا ابولحسن علی ندوی کے بقول: ’’میں اور رفیق محترم مولانا محمد منظور نعمانی ارادے اور وعدے کے باوجود اس کنونشن میں شریک نہیں ہوئے، جس کی اطلاع مولانا حفظ الرحمن صاحب کو جلسہ سے پہلے کر دی گئی تھی۔ مولانا حفظ الرحمن مرحوم کو بھی بہت افسوس رہا۔ وجہ یہ تھی اس کنوینشن کے متعلق اعلان کیا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی تمام جماعنوں کی طرف سے ہو گا، اور اس میں بلا تفریق تمام مسلمان زعماء اور مسلمانوں کے مسائل سے دلچسپی رکھنے والے شریک ہوں گے، لیکن عین وقت پر مولانا کے سامنے یہ سوال کھڑا ہو گیا کہ یا تو وہ کنوشن کو ملتوی کریں یا جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابوللیث صاحب ندوی اور ان کے رفقاء کو اور مسلم لیگ کے رہنماؤں کو مدعو ئین کی فہرست سے خارج کریں۔ کنوینشن کی شہرت اور اس کے انتظامات اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ اب اس کا التواء مشکل تھا۔ انھوں نے عین وقت پر دوسرا فیصلہ کیا ہم لوگوں نے اسی بناء پر کہ اب کنوینشن پورے طور پر آزاد اور تمام مسلمانوں کا نمائندہ نہیں ہے، شرکت سے معذرت کر دی اور مضمون کا ایک اعلان اخبارات میں شائع کردیا۔‘‘

بہر حال کنوشن منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے تقریباً 600عمائدین نے شرکت کی۔ کنویشن نے ایک آٹھ نکاتی ایجنڈا منظور کیا ۔(ایجنڈے کی تفصیلات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ مسائل کے انبار کے لحاظ سے ملت آج بھی اسی مقام سے پر کھڑی ہے جہاں یہ 1961 میں تھی۔ مسائل کی اس لمبی فہرست میں کمی آنے کے بجائے مسلمان نوجوانوں کے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کئے جانے سمیت مزید اضافہ ہو گیا ہے۔) ملّی قائدین ان مسائل سے نمٹنے کے لائحہ عمل پر غور ہی کر رہے تھے کہ 1964 میں ایک مرتبہ پھر مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا جس نے بہار، اڑیسہ، مغربی بنگال، آسام، رانچی، جمشیدپور ، کلکتہ اور ان کے نواحی علاقوں کو زدمیں لے لیا۔ ان فسادات کی خونریزی اور شدت کی نوعیت ایسی تھی کہ ، بقول مدیر ہفتہ وار ریڈینس سید امین الحسن رضوی مرحوم : ’’فسادات کے اس سلسلے نے مسلمانوں کو ہلا مارار اور نوبت یہ آگئی کہ ان علاقوں کے مسلمان بڑی تعداد میں حوصلہ ہار کر ہجرت کی سوچنے لگے۔ یہ صوتحال نہایت تشو یش نا ک تھی جس نے بعض درد مند اور صاحب بصیرت افراد کو جھنجھوڑ کر آمادہ عمل کیا۔ اور یہ احساس ابھرا کہ مسلمانوں کی کوئی بھی جماعت یا تنظیم یا فرد اس پوزیشن میں نہیں ہے جو اپنے بل پر اس سنگین صورتحال سے کما حقہ نمٹ سکے۔ چنانچہ بعض افراد نے پہل کی اور گفتگو کا آغاز کیا۔‘‘

اس فکر کے نتیجے میں مزید ایک کانفرنس 9-8 اگست 1964 کو لکھنؤ میں منعقد کی گئی۔ نا امیدی کے اس ماحول میں اس کانفرنس نے امید اور امنگ کا کیسا جذبہ پیدا کیا تھا اور اس اجتماع سے کیسی توقعات وابستہ کی جا چکیں تھیں اس کا اندازہ اس وقت کے معروف ہفتہ روزہ ’’ندائے ملت‘‘ کی اس تحریر سے ہوتا ہے ، ’’بہت ممکن ہے کہ ملی کام کرنے والی مسلمانوں کی مختلف جماعتوں اور مختلف حلقوں کے اکابر کا مشاورتی اجتماع جو لکھنؤ میں آٹھ اور نو اگست کو ہونے جا رہا ہے، ہندوستانی مسلمانوں کی جدید تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہو۔ اس طرز کے نمائندہ اجتماع کی شدید ضرورت ملت کے تمام مخلص اور باشعور حلقوں میں ایک عرصہ سے محسوس کی جار ہی تھی۔ جون 1961 ء میں جمیعتہ علما ء ہند کی دعوت پر جو مسلم کنوشن دہلی میں منعقد کیا گیا تھا، وہ اسی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے کیا گیا تھا۔۔۔بعض وجوہ کی بنا پر بدقسمتی سے مسلمانوں کی کچھ اہم جماعتوں کو مسلم کو کنونشن میں شریک نہیں کیا جا سکا یا وہ شریک نہ ہو سکی تھیں۔۔۔لیکن خدا کا شکر ہے کہ 9-8 اگست کو ہونے والے مشاورتی اجتماع کے سلسلے میں اس طرح کی دشواری یا الجھن نہیں پیش آئی۔ اسے اجتماع کے اصل داعی اور محرک ڈاکٹر سید محمود کے خلوص اور سوز دل کی برکت ہی سمجھنا چاہئے کہ مسلمانوں کی دو سب سے بڑی اور طاقتور جماعتوں یعنی جمیعتہ علماء ہند اور جماعت اسلامی ہند سے لے کر ان کے تمام مکاتب فکر کے نمائندے اس میں شرکت کر رہے ہیں۔ ‘‘

آزاد ہندوستان میں مسلکی اختلافات کو بھلا کر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث ، شیعہ ، بوہرہ اور دیگر مسالک کے متبعین کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجانے کا یہ پہلا موقع تھا جس میں دیگر تجاویز کے ساتھ ساتھ ایک آل انڈیا مشاورتی کاؤنسل تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا ۔

کتاب میں اخبارات کے اداریوں ، رپورٹوں اور اجلاس میں کی گئی تقاریر کے اقتباسات کا جو انتخاب پیش کیا گیا ہے انہیں پڑھنے اور مسلم پرسنل لا بورڈ سے لے کر مشاورت کی موجودہ حالت اور سوفی ازم کے نام پر پچھلے دنوں کی گئی ایک کانفرنس کو ذہن میں رکھتے ہوئے حیرت بھی ہوتی ہے اور ملا ل و حسرت بھی کہ ایسی کامیاب کوشش کے بعد بھی مسلمانان ہند پہلے سے زیادہ منتشر، کمزور اور غیر منظم اور بے اثر ہیں۔ آج کے حالات ذہن میں رکھیں اور رامپور سے شائع ہونے والے زندگی کا یہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:

’’9-8 اگست 1964 ء کو لکھنؤ میں مسلمانان ہند کا جو مشاورتی اجتماع ہوا، وہ ان کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آزادی ہند کے بعد کا کیا سوال، اس سے پہلے بھی دور دور تک کسی ایسے اجتماع کا ثبوت نہیں ملتا۔ مذہبی عقائد و اعمال کے لحاظ سے بھی اور سیاسی مکاتب فکر کی جہت سے بھی اتنے مختلف الخیال افراد کا ایک جگہ جمع ہونا اور سر جوڑ کر امت مسلمہ کے مسائل پر غور کرنا بجائے خود بڑی خوش آئند اور فرحت بخش چیز ہے۔ دوسری چیزجسے جان کر ایک مسلمان کو بڑی خوشی ہوئی، یہ تھی کہ پورے اجتماع میں دینی و مذہبی فضا چھائی رہی اور خدا سے غفلت کا مظاہرہ نہیں ہوا۔ کسی ایسے نمائندہ اجتماع میں جس کے دائرہ غور و فکر میں سیاست کا بھی دخل رہا ہو اور جس میں ہر فکر کے لوگ موجود ہوں، یہ چیز عرصہ دراز سے مفقود تھی۔ مسائل پر غور کرتے وقت اپنے مسلمان ہونے کا تصور اور آخرت کی باز پرس کا احساس ہمارے سیاسی اجتماعات سے تو جیسے رخصت ہو چکا تھا۔۔۔‘‘

مشاورت کے قیام کے بعد بھائی چارے اور امن کا پیغام لے کر مشاورت کے قائدین نے ملک گیر پیمانے پر دورے کئے جس کی شروعات رانچی سے کی گئی۔ اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ جن کئی معروف ہندو لیڈروں اور سماجی کارکنوں نے امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے اس پیغام کو عام کرنے میں مشاورت کا بھر پور ساتھ دیا ان میں چند نام یہ ہیں: نانچی بھائی پٹیل، پنڈت سندر لال، من سکھ لال دوبے، سوشلسلٹ لیڈر ایس ایم جوشی، ڈاکٹر جن سنگھ پنڈت اور تحت مل جین۔

سید امین الحسن رضوی (مرحوم) مدیر ریڈینس کے بقول: ’’مشاورت نے اپنا پہلا ہدف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ یکجہتی اور الفت و اعتماد کی فضا پیدا کرنے کو قراردے کر اس غرض کے لئے رابطہ عامہ کی مہم شروع کرنے کو قرار دیا تھا ،چنانچہ جلدی ہی اس پروگرام پر عمل در آمد شروع ہو گیا اور مشاورت کے قائدین نے ایک ساتھ دورے کرنے شروع کر دئیے اور آغاز پروگرام میں بعض مقامات کے دوروں میں پنڈت سندر لال جیسی وقیع شخصیت اور بعض دوسرے صاف ذہن کے حامل ہندو حضرات بھی ان کے ساتھ ہوئے۔ مشاورت کے اس وفد کی ہر جگہ بڑی گرمجوشی سے پذیرائی ہوئی جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ حضرات جہاں بھی جاتے وہاں چاہے شہر کے معززین کی مخصوص نشست ہو، خواہ جلسہء عام میں خطاب، ان کا ایک ہی پیغام تھا ، محبت و بھائی چارگی، فرقہ وارانہ یکجہتی اور اعتماد باہم۔ یہ پیغام لوگوں کے دلوں میں گھر کرتا گیا اور مجلس مشاورت کے اس پروگرام کا خوب خوب چرچا ہونے لگا۔۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا متزلزل ہوتا ہوا اعتماد بحال ہونا شروع ہوا اور ہجرت کا خیال ان کے ذہن سے نکلنے لگا۔۔۔‘‘

مگر عین اس وقت جب مشاورت بحیثیت تنظیم لوگوں کے دلوں میں گھر کر رہی تھی ، امن و آشتی کا اس کا پیغام لوگوں کے دلوں میں اتر رہا تھا کہ 1967 کے انتخا بات آ پہنچے اور مشاورت کے کچھ ارکان کے دلوں میں مجلس کے نام سے ان انتحا بات میں حصہ لینے کی خواہش بیدار ہو گئی جبکہ بعض اس کے شدید مخالف تھے۔ انتخابی سیاست میں عملاً حصہ لینے کی تائید میں ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی پیش پیش تھے جبکہ ڈاکٹر سید محمود اس کے سخت مخالف تھے۔ ڈاکٹرسید محمود صاحب کے نام مولانا ابوالحسن ندوی کے ایک خط، مورخہ 1966 ، سے معلوم ہوتا ہے کہ خود مولانا بھی اس خیال کی تائید کرتے تھے۔ اس مسئلے پر ڈاکٹر سید محمود کی ناراضگی دور کرنے کے لئے لکھے گئے اس طویل خط میں مولانا کہا: ’’میں اپنی تمام ذہنی افتاد اور خاندانی روایات کے بر خلاف انتخاب میں مسلمانوں کو موثر اور فیصلہ کن ثابت کرنے کے حق میں ہوں اور اس انتخاب سے، جس کے بعد پانچ سال تک انتظار کرنا پڑے گا، ضرور طاقتور پارٹی اور گورنمنٹ کو یہ تاثر دینا چاہتا ہوں کہ مسلمان غیر مطمئن اور بے چین ہیں۔۔۔برسر اقتدار پارٹی کو سنجیدگی اور عزم کے ساتھ ان کے مسائل کو حل کرا اور ان کو مطمئن کرنا پڑے گا۔ ۔۔اور پارٹی یہ سمجھنے نہ پائے کہ ملک کا پٹہ اس کے نام لکھ دیا گیا ہے۔۔۔‘‘

1965 میں دہلی میں جمہوری کانفریس کا انعقاد کر کے جمیعتہ تو پہلے ہی اپنی راہیں جدا کر چکی تھی مگر اس کا اثر مشاورت پر اتنا زیادہ نہیں پڑا تھا۔البتہ بڑی کوششوں ، جدو جہد، ایثار اور جانفشانی کے بعد قائم کئے گئے اس اتحاد، جو شروع کے دو سالوں میں مقبولیت اور کامیابیوں کی بلندیوں کا چھو رہا تھا، کو ایسی نظر لگی کہ انتخابی سیاست کے مسئلے پرجو دراڑ اس میں پڑی وہ وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی اور مشاورت بتدریج کمزور پڑتی چلی گئی۔ اس کے روح رواں اور پہلے صدر ڈاکٹر سید محمود صدارت سے مستعفی ہو گئے جس کے بعد مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی صاحب کو صدارت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ مفتی صاحب کے ضعف اور بیماری کے باوجود انہیں تقریباً 21 سال تک زبردستی صدارت سے جوڑے رکھا جانا خود مشاورت کے اس وقت کے حالات پر ایک تکلیف دہ تبصرہ ہے۔ بہرحال کسی مستقل دفتر اور مرکز نہ ہونے کے باوجود تنظیم کا قائم رہنا اور کسی نہ کسی انداز میں کام کرتے رہنا حیرت ناک بات ہے۔

1983 میں مفتی صاحب کی موجودگی میں ہی مشاورت کے دو نائب صدر ، شیخ ذوالفقاراﷲ اور سید شہاب الدین، بنادئیے گئے جبکہ اکثر کام شہاب الدین صاحب انجام دیتے رہے۔ اس دوران مشاورت کے دو ٹکڑے بھی ہوئے اوراس میں ایسے افراد بھی شامل ہو ئے مالی معاملات میں جن کی شہرت تقریباً ہمیشہ ہی مشکوک رہی ہے، اور ملّی کونسل کے نام سے متوازی تنظیم بھی قائم ہوئی۔ (جو اﷲ کو پیار ے ہو چکے مالک حقیقی ان کی مغفرت فرمائے مگر جو لوگ زندہ ہیں کاش وہ اپنی غلطی کا ایماندارانہ جائزہ لیں اور ملت کو بتائیں کہ مشاورت کی کمیوں کو جواز بنا کر متوازی تنظیم بنا کر انہوں نے ایک موجودہ تنظیم کو زک پہنچانے کے سوا اور کون سی خدمت انجام دی ہے؟) تاہم تمام تر پریشانیوں اور اندرونی انتشار کے باوجود مشاورت ملّی مسائل کو اٹھانے اور اِن مسائل کے حل کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالتی رہی اور شہاب الدین صاحب نے کار گزار نائب صدر کی حیثیت میں مشاورت کوکافی فعال رکھا اور صدر بننے کے بعدتو انھوں نے مشاورت کو ایک نئی زندگی بخش دی ۔ انھوں نے دستور میں کئی ضروری اصلاحی ترامیم کیں۔ انہیں کے دور صدارت میں 2005 میں مشاورت کا اپنا دفتر بھی بنا ( مصنف کے مطابق اس کام میں مولانا محمد شفیع مونس مرحوم کا بہت اہم تعاون رہا)، مشاورت کے بلیٹن کی اشاعت شروع کی گئی، باضابطہ طور پر ایک کلرک اور آفس سیکریٹری کا تقرر کیا گیا، ملی مسائل پر کئی بڑے سیمینار ز منعقد ہوئے اور مالی اعتبار سے مشاورت کو خود کفیل بنانے کے ساتھ ساتھ اندرون اور بیرون ملک مشاورت کو وسیع پیمانے پر متعارف کروایا گیا۔ تاہم سید صاحب کی انتھک کوششوں کے باوجود مشاورت کو عوام میں وہ حیثیت نہ مل پائی جس کی وہ مستحق ہے۔ مصنف کے بقول اس کی کئی وجوہا ت ہیں مگروہ نمایاں طور پر دو کا ذکرکرتے ہیں۔ مثلاً’’اس عہد میں مشاورت کی دفتری زبان اردو کے بجائے انگریزی کر دی گئی جو کہ ہندوستان میں مسلم عوام اور مدارس سے فارغ علماء کے لئے رابطے کی زبان نہیں تھی۔ وہیں سید شہاب الدین نے ارکان میں ایسے لوگوں کو لانے کی کوشش کی جن کا تعلق عوام سے کم اور بڑے لوگوں سے زیادہ تھا یعنی ۔۔۔ریٹائراعلیٰ افسر، جج ، وکیل، پروفیسر حضرات‘‘۔

ہمارے لئے یہ بات کتنی بھی تکلیف دہ کیوں نہ ہو مگر حقیت یہ ہے کہ نئی نسل کی رابطے کی زبان اب اردو نہیں ہندی ہے۔ رہی بات مدارس کی تو اکثر مدارس مسلکی ،یا پیری مریدی یا کسی شخصیت پرستی / تقلید کی بنیاد پر کسی تنظیم کی تائید یا مخالفت کرتے ہیں (یہ سطور لکھتے وقت راقم الحروف کو ، جب اس کی عمر شاید پانچ یا چھ سال رہی ہو گی، دیوبند مدرسہ اصغریہ کے سامنے 1964 یا 1965 کا مشاورت کاایک جلسہ کچھ ہلکا سا یاد آگیا۔ جس میں طلباء دارلعلوم نے جمیعتہ کی قیادت کی ایما پر زبردست حملہ کیا تھا ۔ظاہر ہے اس وقت ہمیں نہ سیاست کی سمجھ تھی نہ شخصیات کاکوئی علم تھا۔ بس بڑوں سے اتنا سننا یاد ہے کہ مفتی عتیق الرحمٰن صاحب کو جان بچانے کیلئے اسٹیج سے ننگے پاؤں بھاگنا پڑا تھا۔ والد صاحب سے بات کر کے پتہ چلا کہ مفتی صاحب کے ساتھ ڈاکٹر فریدی بھی تھے۔ نیز ٹینٹ اور مائک وغیرہ نزدیک کے کنویں میں پھینک دئیے گئے تھے)۔ اس کے علاوہ اخبارات یا حکومتی اداروں پر اثر انداز ہونے کیلئے ظاہر ہے کہ وہ لوگ زیادہ موثر کردار ادا کر سکتے ہیں جن پر مصنف کو کسی قدراعتراض ہے۔ بہر حال مشاورت میں نئی نسل کی عد م دلچسپی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس پر غور کئے جانے کی ضرورت ہے۔

حال ہی میں صدارت کی میعاد پوری کر نے والے ظفرالاسلام خان صاحب کے بارے میں مصنف کے مشاہدات سے پورا اتفاق کرنا پڑے گا۔ لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر ظفرالاسلام خان علمی اور سماجی اعتبار سے ہندوستان کی معروف شخصیت ہیں۔ عربی ، انگریزی اور اردو میں دسیوں کتابوں کے مصنف، محقق، مترجم اور ملی گزٹ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے پہلے ہی وہ علمی ، ملی اور عوامی حلقہ میں مقبول تھے، مشاورت کی کمان سنبھالنے کے بعد ان کو مزید کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کی جھلک مشاورت کے ذریعہ ان کے عہد میں مختلف فرقہ وارانہ فسادات کے بعد وہاں کی بازآبادکاری کے لئے کوششیں، ان حادثات کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹیں، مختلف وزارتوں اور ذمہ داران کو اس پر لگام لگانے کے لئے لکھے گئے خطوط ، وزراء اور وزیر اعظم سے ملاقاتیں، دھرنے، کانفرنسیں ،دہشت گردی اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے اقدامات کے علاہ متعدد مسائل ہیں جنہیں مشاورت کے پلیٹ فارم سے انھوں نے اٹھایا اور حل کرنے کی کوشش کی۔‘‘

مصنف نے نہایت غیر جانب داری اور ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشاورت کے تمام ادوار کا جائزہ لیا ہے اور اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ کیا ہے جس میں کئی ایسی دلچسپ باتیں بھی آگئی ہیں جن کا علم شاید بہت کم لوگوں کو ہو گا مثلاً یہ کہ لودھی روڈ پر واقع دہلی کا اسلامک کلچر سینٹر بھی مشاورت ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ان کے بقول اس کا مشاورت کے ہاتھ سے نکل جانا مشاورت کی ناکامیوں میں سے ایک ہے ایسے ایک مرکز کا قیام مشاورت کے پروگراموں میں سے ایک تھا ۔اس کا خاکہ شیخ محمد عبداﷲ نے 12 مارچ 1974 کو اندرا گاندھی کے ساتھ 11افراد پر مشتمل مشاورت کے ایک وفد کی ملاقات کے دوروان پیش کیا تھا جس کی قیادت صدرمشاورت مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی کر رہے تھے۔ اس وفد نے 12 نکات ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جانے کا مطالبہ وزیر اعظم کے سامنے رکھا تھا۔۔ عابد رضا بیدار کے مطابق ’’جسٹس ہدایت اﷲ کی مدد سے لودھی روڈ نئی دہلی پر ہجری صدی تقریب کی مناسبت سے موسم بھون کے سامنے کی جگہ سینٹر کو ملی۔ زمین خریدنے کے لئے حکیم عبدالحمید صاحب نے 12 لاکھ روپئے دئیے۔ سینٹر کے لئے رجسٹر ڈ سوسائٹی جس کے صدر حکیم عبدا لحمید صاحب تھے اور مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی (نائب صدر) ، طیب جی ڈائریکٹر ، ایم ڈبلیو ایم یوسف زئی، عابدہ احمد، ایس ایم شفیع، چودھری عارف وغیرہ ممبر ہوئے۔ کچھ دن بعد حکیم صاحب کے مستعفی ہونے کے بعد ایک اور کمیٹی بنی جس کی نئی سربراہ بیگم عابدہ ہوئیں، ڈائریکٹر جنرل موسیٰ رضا صاحب اور پھر محمد فضل صاحب ہوئے۔‘‘

لودھی روڈ پر واقع دہلی کا اسلامک کلچر سینٹر بھی مشاورت ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

بہر حال مشاورت کی زمام اب نئی قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ تنظیم کے نئے صدر نوید حامد صاحب کی بیک گراؤنڈ اور تجربہ سابقہ صدور سے مختلف ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک ایکٹیوسٹ ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی قیادت میں مشاورت ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنا نے میں کامیاب ہو جنہیں ہنوز بروئے کار نہیں لایا جا سکا اور وہ تلخی دوبارہ نہ سننے کو ملے جس کا مظاہرہ مشاورت کی صدارت کے لئے حالیہ انتخابات کے دوران سامنے آیا تھا۔ مشاورت مسلمانان ہند کا قیمتی سرمایہ ہے اسے بہت مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ مولانا ابولحسن علی ندوی ؒ کی مشاورت کے بارے میں یہ رائے آج بھی اتنی ہی درست ہے جتنی 1884 میں تھی: ’’مجلس مشاورت کا ڈھانچہ اب بھی قائم ہے، لیکن 1967 ء کے بعد سے اس میں وہ روح ، جوش و خروش اور فعالیت باقی نہیں رہی ، جس کا اظہار اس کے پانچ سالہ دور میں مسلمانوں کے اس کے استقبال میں جوش و خروش سے ہوا تھالاتدری لَعلّ اﷲیحدِثُ ذَلکِ امراً (تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اﷲ] موافقت کی[ کوئی صورت پیدا کردے، قرآن، اطلاق1 ) کہ اب بھی اس کی ضرورت و افادیت باقی ہے اور اس وفاقی و اصولی قیادت کا کوئی نعم البدل پیدا نہیں ہوا۔‘‘ اس مضمون کا اختتام مفتی عتیق الرحمٰن صاحب کی بمبئی میں کی گئی ایک تقریر سے کرنابے جا نہ ہو گا جس میں مرحوم نے فرمایا: ’’] مسلم [ جماعتوں کی انا نے مشاورت کو کافی نقصان پہنچایا اور بعض جماعتوں کا یہ مزاج بن گیا ہے کہ اگر مسئلہ حل ہو تو ان کے ذریعہ اور ان کے نام پر حل ہو ورنہ پھر وہ مسئلہ حل ہی نہ ہو۔۔۔مشاورت کے سامنے کتنے ہی طوفان آئے، نشیب و فراز آئے، لیل و نہار کی گردشیں آئیں مگر پھر بھی الحمد للہ مشاورت قائم ہے۔ خدانخواستہ مشاورت بکھرگئی تو پھر ایسے اجتماعی پلیٹ فارم کا وجود میں آنا تقریباً نا ممکن ہے۔‘‘

مولانا حفظ الرحمٰن صاحب ؒ کی 1961 کے کنویشن میں کی گئی تقریر

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: