مسئلہ فلسطین پر برطانیہ کی منافقانہ پالیسی پررکن پارلیمنٹ بیرونیس وارثی کی جرات مندانہ تقریر

اگر یہ کہا جائے کہ پوری مسلم دنیا میں اگرکوئی بے باک اور بے خوف مسلمان سیاست داں ہے تو وہ  ہاؤس آف لارڈز میں برطانوی پارلمنٹ کے ایوان بالا، ہاؤس آف لارڈز، کی رکن پارلیمنٹ بیرونیس وارثی ہیں۔ انہوں نے مسلہ فلسطین پر برطانیہ کی منافقانہ پالیسی کے خلاف 2014 میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت میں بحیثیت فارن آف منسٹر استعفیٰ دے کردنیا کو چونکا دیا تھا۔ وہ اس وقت کنزرویٹو پارٹی کی چئیربھی تھیں۔ ظاہرہے ایسا بڑا قدم اٹھانے کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی مگر ان کی بے باکی میں کمی نہیں آئی۔ دوسری پارٹیاں چھوڑیے وہ اپنی ہی پارٹی میں اسلاموفوبیا کی وجہ سے اس پر تنقید کرتی رہتی ہیں۔

 ذیل میں 19 مئی 2021 کو مسئلہ فلسطین پر برطانیہ کی منافقت پران کی تقریرکا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔ انشاءاللہ مفصل مضمون بعد میں پیش کیا جائے گا۔ پرانا مضمون اسی بلاگ پر پڑھا جا سکتا ہےمحمد غزالی خان

اپنی شاندار تقریر میں ملکہ معظمہ نے کہا ہے کہ : ’میری حکومت دنیا بھر میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا دفاع کرے گی۔‘

 میں اس نکتے پر اسرائیل اورفلسطین کے قضیے  کے تناظرمیں بات کروں گی۔ یہ وہی مسئلہ ہے جس پر میں  نے سات سال پہلے کابینہ سے استعفیٰ دیا تھا۔ میں نے اس وقت حکومت میں وہی دیکھا تھا جو ہم اس وقت بھی دیکھ رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہماری حکومت خود اپنی بیان کردہ پالیسیوں کے نفاذ میں ناکام ہورہی ہے۔

مائی لارڈ،   ہماری پالیسی دو ریاستوں کے قیام کے حق میں ہے۔ مگر ہم فلسطین کو ایک ریاست تسلیم نہیں کرتے۔ [ہمارے] وزراء تواس کا نام لینے  تک سے  انکار کرتے ہیں ۔ ہماری قیامِ امن کی ایک پالیسی ہے۔ مگراسے شروع کروانے یا اسے ترجیح دینے کی ہم میں ہمت نہیں ہے۔

ہماری پالیسی ہے کہ [یہودیوں کی] آبادکاری غیرقانونی ہے، بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے مگر پھر بھی ہرسال اسرائیلی حکومت اوردنیا بھرکے یہودیوں کی پشت پناہی سے فلسطینیوں کی زمینوں پرمسلسل قبضہ کرنے والے سیٹرلرز [یہودی آبادکاروں] کے لیے کوئی سزا نہیں ہے۔

 ہم اسرائیل کو [یہودیوں کی] آبادکاری سے بازرکھنے، فلسطینیوں کے گھر وں کو مسمار کرنے اور انہیں زبردستی ان کےوہاں سے نکالے جانے کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ یہ صرف اورصرف نسلی صفائی ہے اور فلسطینی ریاست کی حقیقت اور اس کے وجود سے صریحاً انکارہے۔

ہماری پالیسی ہے کہ مشرقی یوروشلم مستقبل کی فلسطینی ریاست کااٹوٹ حصہ ہے مگر ہم نسل درنسل وہاں رہتے آرہے فلسطینیوں کے گھروں میں گھس کر انتہا پسندوں کو انہیں دہشت زدہ کرتے دیکھ کر بھی کچھ نہیں کرتے۔

ہماری پالیسی انسانی حقوق کا تحفظ کرنے کی ہے مگر ہرسال فلسطینی بچوں کی گرفتاریوں، انہیں جیلوں میں ڈالے جانے اوران کے ساتھ بد سلوکی کے بعد بھی ہماری جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔

ہماری پالیسی بین الاقوامی شفافیت قائم کرنے اوربین الاقوامی فوجداری عدالت کی مالی اعانت کرنے کی ہے مگر ہم فلسطین میں بین الاقوامی عدالت کے ذریعے کی جانے والی جنگی جرائم کی تحقیقات کی مخالفت کرتے ہیں۔

مائی لارڈ! جب جب ہم اپنی پالیسیوں پرعمل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں، ہم دائیں بازو کی انتہا پسند اسرائیلی حکومت کو پیغام دیتے ہیں کہ فلسطینیوں پراس کی زیادتیوں کی کوئی سزا یا اس کا کوئی خمیازہ اسے بھگتنا نہیں پڑے گا۔ اس کھلی چھوٹ سے اسرائیل کی دائیں بازو کی انتہا پسندی کو تقویت مل رہی ہے، جس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آرہا ہے جسے اپنی روح زندہ رکھنے کے لئے جدوجہد کرنی پڑرہی ہے۔

لہٰذا جو کچھ اس وقت ہمارے علم میں ہے ، میں اسے میں ریکارڈ پر لانا چاہتی ہوں تاکہ ہماری آئندہ نسلوں کے ذہنوں میں کوئی شک یا شبہ باقی نہ رہے کہ ہمیں سب کچھ معلوم تھا۔

ہمیں یوروشلم میں ’عرب مردہ باد‘ کے نعروں، مسجد اقصیٰ میں نمازیوں اور  Church of the Holy Sepulchre [عربی میں كَنِيسَةُ  الْقِيَامَة اوراردو میں مقدس قبر، جس کے بارے میں عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو  اس جگہ صلیب دی گئ تھی] کے باہر حملوں کا علم ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینی اور اسرائیلی آبادکاربرابر، برابر رہتے ہیں۔  لیکن پہلے والے [فلسطینی] قانونی طورپرمگر ملٹری قانون کے تحت بنیادی سہولیات کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور بعد والے [یہودی آباد کار] جن کی تعداد 630,000 ہے اور جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، غیرقانونی طورپر رہتے ہیں؛ مگر ان پر شہری قوانین کا اطلاق ہوتا ہے اور جو نسبتاً عیش کی زندگی گزاررہے ہیں۔ یعنی ایک ہی جگہ دو قسم کے لوگوں کے لئے، دو مختلف قانونی نظام اوریہاں تک کے کہ ایک ہی جگہ پہنچنے کے لئے دو مختلف راستے موجود ہیں۔

لہٰذا، مائی لارڈ، جیسا کہ ہیومن رائٹس واچ نے بھی ثبوت فراہم کردئے ہیں، کہ نسل پرستی کی بنیاد پرتفریق اور ظلم کے لحاظ سے بین الاقوامی فوجداری جرائم کی حدود کو پارکرلیا گیا ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ نسلوں سے لوگوں کو ناکہ بندی اورمحاصرے میں زندگیاں گزارنی پڑرہی ہیں۔ وہ کبھی غازہ سے باہرنہیں نکلے جس کا رقبہ آئل آف وہائٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ ایسا پانی پیتے ہیں جس کے بارے میں ادارہ عالمی صحت کا کہنا ہے کہ یہ جانوروں کے پینے کے لائق بھی نہیں ہے۔

مائی لارڈ، ہمیں معلوم ہے کہ غازہ میں کرونا وائرس ٹیسٹ کرنے والی واحد لیب کو اسرائیلی فوج کی بمباری میں تباہ کردیا گیا ہے۔

ہمیں جان بوجھ کر صحافیوں کو نشانہ بنانے اور]خبررساں ادارے] اے پی کی عمارت سمیت، ان پربمباری کا علم ہے، جس کے بارے میں امریکی وزیرخارجہ ڈیوڈ بلنکیٹ کا کہنا ہے کہ وہاں حماس کی سرگرمیوں کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ اسرائیلی سپایہوں نے Channel4 کے لئے کام کرنے والی خاتون صحافی پرحملہ کیا اور اس کا حجاب اتارکرپھینک دیا۔

ہمیں دمشق دروازے پر کل کے اسرائیلی پولیس اور فوج کے غیرضروری اشتعال انگیز رویے کا علم ہے جس کے بارے میں  Sky News کے مارک اسٹون نے رپورٹ دی ہے [وہاں] اور بیت اللہم میں پرامن مظاہرین پراسٹن گرینیڈ اور آنسو گیس کے گولے داغے گئے۔

ہمیں ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے ذریعے غازہ میں اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد اورکنبے کے کنبوں کا صفایا کئے جانے کا علم ہے جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔

ہمیں اقوام متحدہ کے ذریعے اسرائیلی فوج کی بمباری سے مسلسل بڑھتی ہوئی تباہی، جس میں گھر، ہسپتال، لائبریریاں اور رفاہی ادارے شامل ہیں، کا علم ہے۔

اور ہمیں اسرائیل کے سرکاری پلیٹ فارمز سے اس ہفتے ٹوئیٹرپر پھیلائی جانے والی نفرت آمیز اشتعال انگیزی کا  بھی علم ہے جس میں غازہ پر گرتے ہوئے بموں کے فوٹوؤں پرقرآنی آیات لکھی گئیں اور حقارت بھرے انداز میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اسلام کے مطابق فلسطینیوں کی تباہی لازمی ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج نے مزید تین بچوں کو شہید کردیا ہے۔

اور، مائی لارڈ، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس وحشیانہ تشدد کے بارے میں ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔

اور جیسا کہ 2014 میں بھی استعفیٰ دیتے ہوئے میں نے کہا تھا، اس سے ہمارا موقف اخلاقی طورپرناقابل دفاع ہوجاتا ہے۔ 

لہٰذا آج میں چاہتی ہوں کہ حکومت اس بات کو تسلیم کرے کہ آپ کو علم ہے، اور ہم سب کو علم ہے۔

آج میں حکومت سے درخواست کرنا  چاہتی ہوں کہ معمولی سیاسی مفادات کے مطابق کام کرنا چھوڑدے اور ان فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی بات پر توجہ دے جو قبضے کے خاتمے کے خلاف متحد ہیں۔  بتسیلم جیسی اسرائیلی یہودیوں کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور سابق اسرائیلی فوجیوں کی بات سنیں جنہوں نے خاموشی توڑکرحق کے لئے آواز اٹھانی شروع کردی ہے اور جوخطروں اورذلت ناک زیادتیوں کے باوجود مسلسل یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اس مسئلے کا عسکری حل نہیں نکل سکتا۔

میں اس ایوان میں موجود تمام قابل احترام لارڈز کو فرحہ نبلوسی کی بیفٹا ایوارڈ یافتہ فلم The Present  دیکھنے کی درخواست کرتی ہوں جس میں صرف 20 منٹ میں دل خراش داستانوں کے ذریعے روزانہ  کی جارحانہ ذلتوں اورسختیوں کو ننگا کرکے رکھ دیا گیا ہے جو چیک پوائنٹس پر انہیں جھیلنا پڑتا ہے۔

آج میں اپنے قابل احترام دوستوں سے پوچھتی ہوں کہ آج اس ڈسپیچ باکس سے آپ ان فلسطینیوں کو کیا پیغام دے سکتے ہیں جو قبضے کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

ہم اس بات کو کیسے یقینی بناسکتے ہیں کہ دوریاستوں کے حل کی ہماری پالیسی محض دکھاوا نہیں ہے جس کے ذریعے عمل کو چھپایا جارہا ہو  بلکہ یہ فلسطین اور اسرائیل کے لئے ایک حقیقیت ہے۔

اس تقریر کا انگریزی متن اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے

https://www.parallelparliament.co.uk/r/debate/Lords/2021-05-19/debates/A14BD90D-6E0D-451E-8E92-DEF39C645EFD/Queen%25E2%2580%2599SSpeech/contrib/1bed8f53-9d5c-4c25-8169-8a410967adf5

One comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: