دیوبند کے شاہین باغ کی پرعزم مجاہداؤں کی کہانی

دیوبند کی عیدگاہ میں جاری شاہین باغ کی مجاہدائیں

محمد غزالی خان

ہندوستان میں مسلم خواتین اپنے حقوق سے متعلق کتنی بے خبر یا با خبر ہیں اور اپنے گھروں کی چہار دیواری میں کتنی مجبور اور مظلوم یا با اختیار ہیں، ملت کی غیورماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے اس کا ثبوت ہندوستان بھرمیں بنائے گئے شاہین باغوں کے ذریعے دے دیا ہے۔

ظالم حکومت کے ناپاک قانون اور مکروہ افکار کے خلاف احتجاجات دہلی، لکھنؤ اور دیگر بڑے شہروں ہی میں نہیں ہورہے ہیں بلکہ دیوبند جیسے چھوٹے مگر دینی لحاظ سے عالمی شہرت یافتہ قصبے میں بھی جاری ہیں، جہاں 27 جنوری سے صبر و ہمت کی تصویربنی ملت کی ہزاروں بیٹیاں، دارالعلوم سے تھوڑے سے فاصلے پر عیدگاہ میدان میں دھرنے پر ڈٹی ہوئی ہیں۔

اس کامیاب دھرنے کی شروعات ایک ہی خاندان کی تین خواتین، دو سگی بہنوں آمنہ روشی، فوزیہ پروین اور ان کی بھابی فریحہ عثمانی، نے کی تھی۔ جس گھرانے سے ان کا تعلق ہے سیاست سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ گزشتہ ماہ دیوبند، جو میرا آبائی قصبہ بھی ہے، میں ان تین مجاہداؤں اور دیوبند دھرنے کو چلانے والی متحدہ خواتین کمیٹی کی دیگرارکان سے ملاقات ہوئی جس کی روداد قارئین کی دلچسپی کیلئے سوال اور جواب کے ساتھ من و عن نقل کی جارہی ہے۔

سوال: دیوبند جیسے قصبے میں جہاں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ خواتین دن اور رات مسلسل گھروں سے باہررہ کر ایسا کامیاب دھرنا کریں گی۔ بلکہ وزیر اعظم نے تو دنیا کو یہی تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ مسلمان اپنی عورتوں پر بہت ظلم کرتے ہیں اورانہوں نے طلاق ثلاثہ پرقانون پاس کر کے مسلمان خواتین پرہونے والے ظلم کا خاتمہ کرکے بہت بڑا احسان کیا ہے۔ وہ کیا چیز تھی جس نے آپ کو ایسا غیرمعمولی قدم اٹھانے پرآمادہ کیا ہے؟

آمنہ روشی: مودی جی نے ہی تواس قابل کیا ہے! تین طلاق کا بل پاس کروا کر آزادی تو مودی جی نے ہی دلوادی تھی۔ اب وہ پریشان ہو گئے ہیں کہ عورتیں آزاد ہوگئی ہیں۔ اب جب ہمیں آزادی مل گئی ہے توہم اس کا استعمال ہمیں غیر ملکی بنانے کی ان کی کوشش کے خلاف استعمال کر رہی ہیں۔ ملک سے وہ ہمیں نہیں نکالیں گے بلکہ اب ہم آرایس ایس والوں کو نکالیں گے۔

سوال:  یہ تو طنزیہ جواب ہے۔ مگرمیرے سوال کا سنجیدہ جواب کیا ہے؟

آمنہ روشی: سی اے اے کے ذریعے انہوں نے شہریت کا تعلق مذہب سے جوڑدیا ہے جو ملک کے سیکولرآئین کے خلاف ہے۔ اس کے بعد این آرسی اوراین پی آرکے ذریعے ہمیں ڈٹینشن کیمپوں میں بند کرنے کی تیاری ہے۔  ڈاکڑ امبیڈ کر کا دیا ہوا ہمارا آئین اس ملک کے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیتا ہے۔ مگر کچھ عناصرکویہ بات ہضم نہیں ہوپاتی۔ معلوم نہیں یہ کس دنیا میں رہتے ہیں اور یہاں سے ہمارا خاتمہ کرنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ لہٰذا ہم سی اے اے جیسے قانون کے خلاف یہاں آکربیٹھی ہیں اورانشاءﷲ اس کالے قانون کو واپس کروا کر ہی یہاں سے اٹھیں گے۔

سوال: جو بات لوگوں کیلئے باعث حیرت ہے وہ یہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ پرپولیس حملے کے بعد جو خواتین فوری طورپر میدان میں اترآئیں تھیں وہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالبات یا پڑھی لکھی خواتین تھیں یا ان کا تعلق دہلی جیسے بڑے شہر سے تھا۔ مگر دیوبند جیسے چھوٹے اور قدامت پسند سمجھے جانے والے قصبے کی خواتین کوسڑکوں پر اتر آنے اور دارالعلوم جیسی درسگاہ کے بالکل بغل میں ایسا کامیاب دھرنا کرنے کی ترغیب کہاں سے اور کیسے ملی؟

آمنہ روشی: لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم خواتین، بالخصوص دیوبند جیسے قصبے میں، پردے میں رہتی ہیں اور انہیں نہ اپنے حقوق کا علم ہے اورنہ ملک میں کی جانے والے گندی سیاست کی انہیں کوئی خبر ہے۔ ہم پردے میں رہ کرحالات پرپوری نظر رکھتے ہیں۔ ہمارے اس احتجاج میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ ہرطرح کی خواتین موجود ہیں اور ہم یہاں کسی کے کہنے یا لالچ میں اپنے گھر کا آرام چھوڑ کر اس سردی اور بارش کو جھیلنے کیلئے نہیں آئے ہیں۔ ہم خود سی اے اے کے بارے میں سن رہے ہیں اور اپنے موبائلوں پر پڑھ رہے ہیں۔ ایسا جذبہ کسی کے ورغلانے سے نہیں محض اپنی فکراور یقین سے پیدا ہوتا ہے، بالخصوص جب معاملہ آپ اور آپ کی نسلوں کی موت اورزندگی کا ہو، پردے میں رہنے کا مطلب  یہ تو نہیں ہے کہ ہم نے محض دینی تعلیم حاصل کرکے اپنے آپ کو گھروں میں مقید کرلیا ہے اور اپنی عقلوں پر تالے ڈال لئے ہیں۔ ہم شریعت کا بھی علم رکھتے ہیں اور ہمیں دنیاوی تعلیم بھی ملی ہے۔

دیوبند عیدگاہ پر مظاہرے کا ایک منظر

سوال: اس احتجاج سے پہلے خوف کا ایک ایسا ماحول پیدا کردیا گیا تھا جسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ شاید اب مسلمان کبھی اپنے حقوق اور اپنے اوپرہونے والی زیادتیوں کے خلاف کبھی آواز نہ اٹھا پائیں، مگرجس غیرمعمولی جرات کا مظاہرہ آپ لوگوں نے کیا ہے اس کی وجہ سے آپ پرمختلف طریقوں سے دھرنا ختم کرنے کا دباؤ بھی ڈالا جارہا ہو گا؟

آمنہ روشی: جی ہمارے اوپر ضلع انتطامیہ نے بہت زیادہ دباؤ ڈالا ہے۔  27 جنوری، جب سے ہم نے دھرنا شروع کیا، ہمارے اور ہمارے گھروالوں پر مستقل دباؤ ڈالا جارہا ہے۔  ہم میں سے کل 105 کے  نام نوٹس جاری کردئے گئے ہیں جس میں ملک دشمنی اور اُگرواد‘ (عسکریت پسندی) کا الزام لگایا گیا ہے۔ ہمارے ایک بھائی، جو ایک صحافی ہیں اور ایک ہندی روزنامے سے وابستہ ہیں، پر مقدمہ قائم کردیا گیا ہے۔ دوسرے بھائی کے خلاف بھی مقدمہ دائر کردیا گیا ہے۔ ہمارے بھائی سے کہا گیا کہ آپ ایک صحافی ہیں اپنی بہنوں پر دھرنا ختم کرنے کیلئے دباؤ ڈالیں، مگر ہمارے بھائی نے ہم سے کہا کہ تمہیں جو صحیح لگے وہ کرو۔ انہوں نے کہا کہ میری نوکری جاتی ہے تو جائے۔ میری وجہ سے تمہیں اپنا موقف تبدیل کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ جب 27 جنوری کو ہم نے دھرنا شروع کیا تھا تواس دن سخت سردی اور طوفانی بارش کے ساتھ ساتھ ان نوٹسوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے حوصلے اس وقت پست نہیں ہوئے تو اب کیا ہوں گے؟ جب کوئی ہمت نہیں کررہا تھا توہم نے سوچا کہ ہم اٹھیں گے اور اپنے آئینی حقوق اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائیں گے ، کسی نہ کسی کو تو ہمت کرنی ہی پڑتی ہے، میں نے اورمیری بہنوں نے گھرگھرجاکر خواتین کومسئلے کی سنگینی کے بارے میں بتایا۔

سوال: کیا آپ دونوں سگی بہنیں ہیں؟

آمنہ روشی: جی ہاں ہم دونوں سگی بہنیں ہیں اور یہ ہماری بھابی ہیں۔ اسطرح ایک ہی گھر کی ہم تین خواتین نے اس احتجاج کا آغاز کیا تھا۔

سوال: کیا اس سے پہلے کبھی آپ میں سے کسی نے کسی بھی سیاسی یا سماجی تحریک یا پروگرام میں حصلہ لیا تھا؟ یا آپ لوگوں کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق رہا ہے؟

آمنہ روشی: ہم تو پہلی مرتبہ گھروں سے نکلی ہیں اورکسی بھی تنظیم یا سیاسی جماعت سے ہمارا کوئی تعلق نہ ماضی میں تھا، نہ اب ہے اور نہ آئندہ کے ہمارے سیاسی مقاصد اور خواب ہیں۔ ہمارے اس دھرنے کی پیچھے صرف ملی جذبہ ہے۔ کیا ہم اپنی بربادی اور اپنی نسلوں کی بربادی کے پروگراموں پر بھی ہم خاموش رہیں؟ کل ان قوانین کے نتیجے میں ہماری نسلوں کو جن مشکلات اورذلت کا سامنا کرنا پڑے گا کیا وہ ہم سے سوال نہیں کریں گے کہ جس وقت یہ سب کچھ ہورہا تھا اس وقت آپ کہاں تھیں تو انھیں ہم کیا جواب دیں گیں؟

سوال: میں نے آج آپ کے دھرنے سے خواتین کو ٹریکٹر اور  ٹرالیوں میں واپس جاتے دیکھا ہے، کیا آپ کو صرف قصبے کی خواتین کا سپورٹ ہے یا اطراف کے دیہاتوں کی خواتین کی بھی اس میں شامل ہیں؟

آمنہ روشی: ماشاءﷲ اب ہماری آواز اطراف کے دیہاتوں تک پہنچ رہی ہے اورجہاں جہاں ہماری آواز پہنچ رہی ہے دیہاتوں سے بھی خواتین دھرنے میں شامل ہونے کیلئے آرہی ہیں، بلکہ میرٹھ، مظفرنگر، بجنور، نانوتا وغیرہ تک سے خواتین آرہی ہیں۔ البتہ بڑی تعداد دیوبند اور اطراف کے دیہات والوں کی ہی ہے۔

سوال: دیوبند میں ایک پیٹرول پمپ، ایک بھٹے اور کچھ دوسرے کاروباروں پر حکومت کی جانب سے تالا ڈالے جانے کی اطلاعات ہیں، کیا ان لوگوں کا دھرنے سے کوئی تعلق ہے؟

آمنہ روشی: ایسی تحریکوں سے ہمدردی رکھنے والوں یا رہنمائی کرنے والوں کے خلاف ایسی کارروائی ہوتی ہی ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں پر شکنجہ کسنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت ان لوگوں کے ذریعے ہمارے اوپر دباؤ بنانا چاہتی تھی مگر ہم کسی دباؤ کے آگے جھکنے والے نہیں ہیں۔ ان منحوص قوانین کے اطلاق کے بعد ہمارے پاس رہ کیا جائے گا۔ لہٰذا خدانخواستہ اگر کچھ ہونا ہی ہے تو حق بات کہتے ہوئے ہوجائے گا۔

سوال: ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب مہتمم دارالعلوم سمیت قصبے کے معززین کوآپ کے پاس بھیجا گیا اور انہوں نے آپ سے دھرنا ختم کرنے کو کہا مگررد عمل میں آپ نے ان پر چوڑیاں بھینکیں؟۔

ارم عثمانی: نہیں! مہتمم صاحب ان لوگوں کے ساتھ نہیں تھے۔ ہم ان کا احترام کرتی ہیں اور اگر وہ ہوتےتوکم از کم ہم یہ کام تہ نہ کرتے۔ یہاں پر سابق ایم ایل اے، چئرمین اور کچھ دیگر حضرات ضلع انتظامیہ کے کہنے پر ہمیں یہاں سے اٹھانے آئے تھے۔ ہمیں غصہ اس لئے آیا کہ اس دن ہمارے دھرنے کو 13 دن ہوچکے تھے، اس دوران ہم نے سردی اور بارش سمیت کیا کچھ نہیں جھیلا۔ ان 13 دنوں میں ان ’معززین‘ کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ آکر پوچھ لیتے کہ بہنوں تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ اس غصے میں ہم نے اپنے ہاتھوں کی چوڑیاں اتار کر ان پر پھیکیں۔ ہم اپنے حق کیلئے یہاں بیٹھی ہیں۔ ان ’معززین‘ کو تو چاہئے تھا کہ ہماری مدد کرتے اور ہمیں مضبوطی فراہم کرتے۔ مگر وہ ہمیں اٹھانے کیلئے آئے۔

سوال: آپ کا یہ دھرنا دارالعلوم دیوبند کے بالکل بغل میں جاری ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کی بڑی تعداد میں طلباء مدارس بھی آپ کی حمایت میں کھڑے ہیں، کیا آپ کو دارالعلوم کی حمایت حاصل ہے؟

سلمیٰ احسان: انہوں نے کھل کر نہ ہماری تائید کی ہے اورنہ ہمارے خلاف کوئی بیان دیا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ احتجاج صرف خواتین کا احتجاج ہے۔ لہٰذا ہم اس بات کی توقع تو نہیں کر سکتے کہ مہتمم صاحب یہاں آکر بیٹھیں گے۔ البتہ کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ احتجاج کرنا تمام شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں وہ اخلاقی طورپرہمیں سپورٹ کرتے ہیں۔

سوال: ظاہر ہے کہ ایسے دھرنے کے انتظامات پرخرچ بھی ہوتا ہے۔ یہ اخراجات کیسے پورے ہورہے ہیں؟

سلمیٰ احسان: اسکے لئے ہم کسی سےمانگنے نہیں جا رہے ہیںَ لوگ اپنی مرضی سے ان اخراجات میں تعاون کررہے ہیں۔ بہت سی بہنیں کھانا لے آتی ہیں جو ہم مل بیٹھ کر کھالیتے ہیں۔ 

سوال: آپ کب تک اس دھرنے کو جاری رکھیں گیں؟

آمنہ روشی، فوزیہ پروین، فریحہ عثمانی ، سلمیٰ احسان اور ارم عثمانی (تینوں ایک ساتھ) ہم شاہین باغ کے ساتھ ہیں۔ جب وہاں دھرنا ختم ہوگا تو ہم بھی کردیں گے۔ ہم ان کے ہر فیصلے کے ساتھ ہیں۔

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: