مغرب میں مسلم صحافت کے بانی محمد حاشرفاروقی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے

Photo courtesy of The Muslim News

محمد غزالی خان

معروف صحافی، دانشور، برطانیہ میں مسلم صحافت کے ایک اہم سطون، انگریزی جریدے امپیکٹ انٹرنیشنل کے بانی اور مدیر محمد حاشر فاروقی صاحب کا 11 جنوری کو لندن میں انتقال ہوگیا۔

فاروقی صاحب کی پیدائش 4 جنوری 1930ء کو ہندوستانی صوبہ اترپردیش کے شہرغازی پورمیں ہوئی تھی ۔ زمانہ طالب علمی میں وہ تحریک پاکستان سے وابسطہ رہے اور کان پورایگری کلچر کالج ، جہاں سے انہوں نے اینٹومولوجی (علم حیوانات) میں بی ایس سی کی تھی، میں مسلم اسٹوڈینٹس یونین کے سیکریٹری رہے۔ پاکستان آنے کے بعد انہوں نے کئی سال محکمہ زراعت میں اعلیٰ عہدے پرکام کیا اور1960ء میں امپیریل کالج میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے وہ لندن آگئے۔

صحافت اورتحقیق سے فاروقی صاحب کا زمانہ طالب علمی سے ہی گہرا لگاؤ تھا۔ اس شوق کی تکمیل وہ مختلف جرائد اور رسائل میں مضامین لکھ کرکیا کرتے تھے جس نے بعد میں مسلم دنیا میں بدلتے ہوئے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے انہیں ایک بڑاقدم اٹھانے پرمجبورکردیا۔ اپنا کیریئرتبدیل کرکے انہوں نے مئی 1971 میں امپیکٹ انٹرنیشنل نامی جریدے کی بنیاد رکھ دی اور خود بحیثیت مدیر، اسکالراور مصنف عبدالواحد حامد، بحیثیت معاون مدیراور سلیم صدیقی صاحب بحیثیت منیجر کے پندرہ روزہ رسالے کا آغازکردیا۔

محمد حاشرفاروقی ایک ایسی شخصیت کا نام تھا جس نے صحافت کے ذریعے اسلام اور ملی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔ یہ کہنا بالکل مبالغہ نہ ہوگا کہ عالم اسلام میں امپیکٹ انٹرنیشنل اپنے وقت کا، بالخصوص 70 سے 80 کی دہائی میں، اپنی طرح کا واحد رسالہ تھا جس میں مسلم دنیا کے بڑے رہنماؤں کے ساتھ کئے گئے فاروقی صاحب کے انٹرویوز شائع ہوئے۔ ان شخصیات میں سعودی عرب کے مرحوم فرمانروا شاہ فیصل، ایران کے روحانی قائد آیت اللہ خمینی، پاکستان کے مرحوم صدر ضیاءالحق، فلسطینی قائد مرحوم یاسرعرفات، انڈونیشیا کے مرحوم صدر سوہارتواور ملیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد شامل ہیں۔

غیرمغربی، بالخصوص اسلامی ممالک کی مجبوری ہمیشہ ہی یہ رہی ہے کہ خبروں کے معاملے میں مغربی ذرائع ابلاغ پرجانب داری کے الزام کے باوجود بین الاقوامی خبروں کے لئے انہیں انہی اداروں پرانحصارکرنا پڑا ہے بلکہ سوشل میڈیا کے اس دور میں بھی بڑی حد تک انھیں اسی پر گذارا کرنا پڑرہا ہے۔ سوشل میڈیا سے پہلے کے اس دور میں امپیکٹ کا معاملہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا ۔ سرد جنگ اور بدترین ڈکٹیٹرشپس کے اُس دور میں دنیا بھر سے معلومات اور خبریں جمع کرنا کتنا مشکل کام ہوسکتا تھا اس کا اندازہ کم ہی لوگ لگا سکتے ہیں۔ مگرمعلوم نہیں فاروقی صاحب پر ان کے معاونین کو کتنا بھروسہ تھا کہ نیوزبلیک آؤٹ کے باوجود روس کے زیرتسلط مسلم علاقے ہوں یا مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ڈکٹیٹروں کی حکومتیں ہوں ہرجگہ ان کے ایسے وفاداررابطے موجود تھے جو خطرے مول لے کررضاکارانہ طورپر بذریعہ ڈاک ان کومعلومات فراہم کرتے رہتے تھے۔ ان ہی قیمتی اور انوکھی معلومات کے بنیاد پر کئے گئے فاروقی صاحب کے تجزیے اور تبصرے سنجیدہ حلقوں میں اور اداروں میں نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھے جاتے تھے اور تحقیقاتی اورعلمی مضامین اور کتب میں ان کے حوالے دئے جاتے تھے۔

امپیکٹ کے دفترمیں فاروقی صاحب نے نہایت منظم آرکائیو بنایا تھا ۔ چھوٹے سے چھوٹا مضمون لکھنے کے لئے بھی نہایت گہرائی کے ساتھ وہ آرکائیو سے فائلیں نکال کر مطالعہ کرتے، کسی خبرکی حقیقت تک پہنچنے کے لئے اپنے رابطوں سے اس کی سچائی معلوم کرتے یہی وجہ ہے کہ ان کے مضامین صرف تجزیہ پر مبنی نہیں ہوتے تھے بلکہ معلومات کا خزانہ ہوتے جنھیں پڑھ کر مسائل کی گرہیں کھلتیں اور حقیقت کا ادراک ہوتا تھا۔

1984 کی ایک یاد گار تصویر جس میں فاروقی صاحب اسٹراؤڈ گرین روڈ پر پرانے دفرت میں ٹائپ رائٹرپر کام کررہے ہیں

فاروقی صاحب باضابطہ طورپرکسی جماعت سے وابسطہ نہیں تھے، مگر مولانا مودودیؒ سے عقیدت کی وجہ سے جماعت اسلامی کے ساتھ ان کی ذہنی ہم آہنگی تھی۔ حاسدین اورمخالفین کی پھیلائی ہوئی افواہوں کے برعکس امپیکٹ کو کبھی کسی حکومت سے کوئی مالی مدد نہیں ملی۔ فاروقی صاحب کی خودداری اور عزت نفس نے انہیں کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانے دیا اورامپیکٹ کی پینتیس سالہ عمر میں اس کے مدیرنے اپنی خودمختاری پرکسی سے سودا نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑی بڑی شخصیات کے ساتھ تعلقات رکھنے والی اس بڑی شخصیت نے پوری زندگی کلبرن میں کرائے کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں گزاردی۔

فاروقی صاحب بلا کے خود دار انسان تھے، ان کی یہی وہ خوبی تھی کہ بڑی سے بڑی پیش کش بھی ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ ایک مرتبہ سعودی تاجرصلاح الدین صاحب نے لندن سے ’عربیہ‘ نکالنے سے پہلے فاروقی صاحب کو پیشکش کی کہ وہ امپیکٹ بند کرکے ان کے رسالے کی ذمہ داری سنبھال لیں جس کے لئے اتنی بڑی رقم کی پیشکش کی گئی  کہ ان مشکل حالات میں اچھوں اچھوں کے لئے اپنے موقف پرقائم رہنا مشکل ہوتا مگر فاروقی صاحب نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا اورامپیکٹ جاری رکھنے پر قائم رہے۔

مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے ذہانت، بصیرت، یکسوئی اور لگن کے ساتھ ساتھ عاجزی و انکساری کی بے پناہ نعمت سے نوازا تھا۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ظفراسحاق انصاری یا ان کے والد ظفراحمد انصاری صاحب  میں سے کسی ایک کی ایک بات اکثردہرایا کرتے تھے کہ اگر کوئی انسانوں سے کریڈٹ کی امید نہ رکھے تو بہت سے کام کرجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یوکے اسلامک مشن ، مسلم ایجوکیشنل ٹرسٹ، مسلم ایڈ، اسلامک فاؤنڈیشن اور مسلم کونسل آف برٹین کے بانیان میں ہونے کے باوجود انہوں نے کہیں بھی کسی بڑے عہدے کی خواہش کی نہ اسے حاصل کرنے کی کوشش۔ جو عہدے ان کو قبول کرنا پڑے وہ ان کی مجبوری تھی کہ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ مسلم کونسل آف برٹین تو کلیتاً انہی کے ذہن کی پیداوار تھی۔ اس سے متعلق صرف ایک واقعہ بیان کرنے پراکتفا کروں گا۔ ایک مرتبہ فاروقی صاحب کے کہنے پر میں نے ایم سی بی میں ایک جگہ کے لئے درخواست دے دی ۔ تنظیم کے ایک بہت بڑے عہدیدار نے جب انٹرویو میں مجھ سے یہ سوال کیا کہ میں ایم سی بی کے بارے میں کیا جانتا ہوں تو میں نے جواب دیا: ’ایم سی بی کی پیدائش کے وقت میں ڈلیوری روم میں موجود تھا۔‘ ظاہر ہے میرا جواب پسند نہیں کیا گیا۔

فاروقی صاحب کی اپنے مقصد سے لگن اورملی مقاصد کے لئے اپنی ذات کی نفی کا ایک واقعہ امپیکٹ انٹرنیشنل کے قیام سے 2013 میں اس کے بند ہونے تک ان کے ساتھی اورادارے کے منیجر سلیم صدیقی صاحب (سابق میئر لندن بارو آف ہیکنی) نے یوں بیان کیا ہے:

’1966 مصری حکومت نے سید قطبؒ کی پھانسی کا اعلان کردیا تھا ۔ لندن میں یوکے اسلامک مشن کے صدر دفترمیں تمام مسلم ممالک کے دینی ذہن رکھنے والے لوگ جمع تھے اوراس بات پرغورکررہے تھے کہ مصری حکومت پریہ فیصلہ واپس لینے کے لئے کیسے دباؤ ڈالا جائے۔ فاروقی صاحب اس وقت امپیریل کالج میں اینٹومولوجی (علم حیوانات) میں پی ایچ ڈی کررہے تھے۔ میٹنگ کے دوران فاروقی صاحب کے لئے ایک فون آیا۔ فاروقی صاحب فون کے پا س پہنچے ۔ فون پردوسری جانب ان کے ایک دوست تھے جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی لندن شاخ میں کام کرتے تھے۔ انہیں فاروقی صاحب کے لیے ٹیلیکس پر ایک پیغام موصول ہواتھا۔ میں کیونکہ فاروقی صاحب کے قریب کھڑا تھا میں نے انہیں انالله وانا اليه راجعون پڑھتے اورپاکستان میں اپنے چھوٹے بھائی کو جواب دینے کی ہدایت دیتے سنا۔ جس کے بعد فاروقی صاحب واپس آکرکرسی پربیٹھ گئے۔ میں نے اوردیگرلوگوں نے ان کے رنج کی کیفیت محسوس کرلی تھی مگرفاروقی صاحب نے اس وقت کسی سے فون کے بارے میں بات نہیں کی ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ پاکستان سے فون پران کے والد کے انتقال کی خبردی گئی تھی۔‘

خود نمائی سے نفرت کی حد تک پرہیزکرنے اوردوسروں کو آگے بڑھانے کی عادت سے فاروقی صاحب کو کبھی کبھی مایوسی کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر انہوں نے کبھی کسی سے اپنے احساسات کا ذکر نہیں کیا۔ غالباً ان کے اپنے تجربات کا نچوڑ تھا جب انہوں نے مجھے ایک موقع پرمشورہ دیا تھا کہ: ’بیک سیٹ سے ڈرائیوکرنے کی کوشش نہ کرو۔‘ مگر یہ مشورہ اپنے چھوٹوں کے لئے تھا خود اپنی زندگی میں خود نمائی ان کے لئے ایک گناہ تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم نیوز کے مدیر احمد ورثی نے جب 2013 میں فاروقی صاحب کو مسلم نیوزکی سالانہ تقریب میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دینے کا ارادہ کیا تواس بارے میں پریشان تھے کہ فاروقی صاحب کو یہ انعام قبول کرنے کے لئے کیسے تیارکیا جائے۔ ہم دونوں کے علم میں یہ بات تھی کہ ایک بہت بڑی تنظیم کی ایسی ہی پیشکش قبول کرنے سے وہ انکارکرچکے تھے۔ جب احمد ورثی نے اس بارے میں مجھ سے مشورہ کیا اور میری مدد چاہی تو مجھے بھی امید نہیں تھی کہ فاروقی صاحب اس کے لئے تیار ہوجائیں گے۔ بہرحال میں نے ان سے کہا کہ میرے براہ راست بات کرنے کے بجائے آپ وقت لے کر ان کے گھرپر پہنچ جائیں اوراپنی تجویز یہ کہہ کر پیش کریں کہ ہم چاہتے ہیں نوجوان مسلمان آپ سے ترغیب لیں ۔ لہٰذا انہوں نے ایسا ہی کیا اورتیر نشانے پرلگ گیا۔ اور انعام حاصل کرتے ہوئے جو کچھ انہوں نے کہا وہ یہ تھا: ’یہ انعام آپ سب کا ہے میں صرف اسے وصول کررہا ہوں۔‘ اسی تقریب میں احمد ورثی صاحب نے فاروقی صاحب کے بارے میں کہا تھا: ’میرے لئے مسلم نیوز شروع کرنے میں وہ ایک مشعل راہ اور سہی معنوں ایک جرات مندانہ صحافت کے بانی تھے۔ دوسروں کے لئے وہ مسلم کمیونٹی کی جدوجہد کے ایک اہم ستون ہیں اوراپنے قارئین کے لئے، اس وقت ہم جس دنیا میں اب ہم رہتے ہیں اس کے اور مسلم دنیا کے درمیان ایک رابطہ ہیں جس کا سفر ترک نو آبادیات، جنگوں اور نئی شناختوں کے درمیان شروع ہوا ہے۔۔۔‘

میں نے فاروقی صاحب کے ساتھ بطور ٹرینی 1983 میں کام کرنا شروع کیا اور 1992 تک امپیکٹ سے وابسطہ رہا۔ اس دوران محسوس ہوا کہ بظاہرکمزور سی نظرآنے والی اس شخصیت کا عزم فولادی تھا۔ جن حالات میں 35 سال انہوں نے امپیکٹ کو بلاناغہ جاری رکھا وہ کسی معجزے سے کم معلوم نہیں تھا اور سچی بات تو یہ ہے کہ مقصد کی دھن اور پختہ عزم کے بغیریہ ممکن بھی نہیں تھا۔

میرے ساتھ  فاروقی صاحب کا رویہ ایک شفیق استاد اوربزرگ کا تھا۔ صحافت ہی نہیں زنگی کے مختلف مراحل میں انہوں نے میری رہنمائی فرمائی۔ امپیکٹ چھوڑنے کے بعد بھی صحافت اوررضاکارانہ کاموں سے متعلق مستقل ان کی رہنمائی کی فلم دماغ میں چل رہی ہے۔ کس کس خوبی کا ذکرکروں۔ احسان کے معاملے میں ان کا رویہ یہ تھا کہ اگرکسی میں اتنی استعداد نہ ہو کہ احسان کرکے بھول جائے تو بہتر ہے وہ احسان نہ کرے اور وہ سورہ بقرۃ کی اس آیت پرسختی کے ساتھ عمل کرتے تھے: ’ اے ایمان لانے والو!اپنے  صدقات کو احسان جتاکر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک  میں نہ ملا دو ، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہےاور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے، نہ آخرت پر۔ اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی ۔ اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئ اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کرکے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا۔۔۔‘ بہرحال آج میں اپنے محسن، اپنے استاد اور سرپرست کا ذکر انہیں کے ان الفاظ کے ساتھ ختم کرتا ہوں جو انہوں نے اپنی ہی جیسی ایک شخصیت، محمد مسلم صاحب، مدیر دعوت، پر تعزیتی مضمون میں لکھے تھے: ’وہ اپنے کاموں کے کریڈٹ کی کسی سے توقع نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ وہ اپنا کریڈٹ اللہ تعالیٰ کے یہاں جمع کررہے تھے ۔‘

3 Comments

  1. Now what we can do for his eternal memory is to digitalize the back numbers of the Impact and also try to make a project for a web magazine with the same title if possible..

  2. Thank you ghazali khan Sahib for your kind words on sad demise of MHF.
    Mr. V. A. Kabeer from Kerala, has proposed excellent valuable way to pay homage to MHF.

  3. Assalam alaikum
    May Allah accept Farooqi saheb good feed. bestow him higher status in Jannah.

    I also endorse the suggestion of brother V. A. Kabeer

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: