حضرت امام زید ابن علی شہیدؒ

zaid ibn ali

ایران پر صیہونی حملے کے بعد ملتِ اسلامیہ نے ہوش کے ناخن تو کیا لینے تھے، سوشل میڈیا پر مسلکی منافرت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔

مسلک در مسلک بٹی ہوئی، نبیِ رحمت ﷺ کی زخم خوردہ یہ امت جس طرح ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کے پہاڑ کھڑے کرنے میں اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں برباد کر رہی ہے، اسے دیکھ کر شدید مایوسی ہوتی ہے۔ ہر طرف سے ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے سچے، زہریلے پروپیگنڈے کا طوفان برپا ہے۔

ان دنوں شامی نژاد برطانوی اسکالر عادل صلاحی صاحب کی کتاب Pioneers of Islamic Scholarship زیرِ مطالعہ ہے۔ جو احباب انگریزی پڑھ سکتے ہیں، انہیں اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ (اردو ترجمے کے لیے فی الحال انتظار کیجیے۔)

بہرحال، کتاب کے ایک باب کا مکمل ترجمہ پیش خدمت ہے۔ اگر اسے کھلے ذہن اور غیر جانب داری کے ساتھ پڑھا جائے، تو ان شاء اللہ یہ مضمون تبرّا باز رافضیوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے گا اور تمام شیعوں کو ایک ہی خانے میں رکھنے والے سنیوں کی سوچ میں بھی وسعت کا باعث بنے گا۔

یہ بات واضح رہے کہ یمن کے مسلمانوں کی بھاری شیعہ اکثریت “زیدی” ہے، جو امام زید بن علیؒ کو مانتی ہے۔

غزالی

 

’’میں نے زید بن علی کو دیکھا ہے اور میں کہتا ہوں کہ میں نے ان سے زیادہ  گہری نظر والا، وسیع علم ، حاضر جواب   یا فصیح البیان   عالم کوئی اور  نہیں دیکھا۔ وہ بے نظیر تھے۔‘‘
یہ  بیان کسی اور کا نہیں بلکہ  مسلم دنیا میں سب سے بڑے   پیمانے پر مانے جانے والے فقہ کے  بانی امام ابو حنیفہؒ  (متوفی ۱۵۰ ہجری) کاہے۔ ان کے اس بیان کی تائید عبداللہ بن حسن (متوفی ۱۴۵ ہجری) نے بھی کی ہے، جو  امام ابو حنیفہ ؒکے اساتذہ میں سے تھے۔ زید بن علیؒ کے بارے میں   وہ کہتے ہیں: ’’میں نے ان جیسا کوئی نہ  ہمارے  درمیان (یعنی نبیﷺ کے خاندان میں) اور نہ ہی دوسرے لوگوں میں دیکھا ہے۔‘‘  زید بن علی کے بارے میں ایسی آرا  اور ایسے  ہی  دیگر اقوال  اس بات کے متقاضی ہیں کہ  زید بن علیؒ، جو خود  اپنی ذات میں ایک  عظیم امام تھے،  کی زندگی پر مزید روشنی ڈالی جائے ۔

حضرت زید بن علیؒ،  آپﷺ کے نواسے    حضرت حسین ابن علی ؓ کے پوتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پر نانا خود نبی اکرم ﷺ تھے۔  حضرت علی بن ابی طالب، جو نبیﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے ، کو   دورِ رسالت میں سب سے  جری  سپاہی  سمجھا  جاتا تھا۔  نبی رحمت ﷺ نے حضرت علی  کرم  اللہ ولا وجہہ کو  اپنےصحابہ  میں  بہترین قاضی اور ’’علم کا شہر‘‘ قرار دیا تھا۔
اس طرح حضرت زیدؒ ایک ایسی ممتاز  خاندانی نسبت کے حامل تھے  جو اپنی مثال آپ  ہے ۔ مگر  اسلام میں نسب کو کوئی ایسی خصوصیت نہیں سمجھا گیا جس پر فخر کیا جائے گا   علاوہ اس کے کہ اس کے ساتھ ساتھ  نیک اعمال  کے ذریعے امتیاز  حاصل کرلیا گیا ہو  ۔
اسی لیے نبی ﷺ نے اپنے قبیلے سے  مخاطب ہوتے ہوئے  فرمایا تھا : ’’  ایسا نہ ہو کہ لوگ  محشر میں اپنے اعمال کے ساتھ  میرے پاس آئیں  اور تم  محض خاندانی نسبت  لے کر  آؤ۔‘‘   یہی وجہ ہے کہ حضرت علی ؓ کی زوجہ اور  آپ ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ  کی اولاد خاندانی نسبت کے ساتھ ساتھ  اعمال صالحہ کے بارے میں  ہمیشہ  فکرمند رہتی تھی۔

حضرت زید بن علیؒ  80 ہجری  (700 عیسوی) میں پیدا ہوئے تھے۔  کچھ  راویوں نے ان کی پیدائش اس سے پانچ سال قبل بھی بیان کی ہے۔  ان کی شہادت  122  ہجری میں ہوئی تھی ۔ اس وقت ان کی عمر  42   سال کی   یا اگر دوسری  روایت  درست  ہے تو  47 سال کی  تھی۔ ان کے والد  ’’علی زین العابدین‘‘کے لقب سے معروف ہیں۔  جس کا مطلب ہے ’’عبادت گزاروں  میں سے ایک ہیرا‘‘۔ زین العابدینؒ  غمگین رہتے  تھے بلکہ  اکثر   آنسوؤں کے ساتھ رو یا کرتے تھے، کیونکہ وہ کربلا کی لڑائی  میں اپنے تمام  بھائیوں میں  بچ جانے والے  واحد فرد  تھے۔  جس وقت   امام حسینؓ کی شہادت ہوئی  ، زین العابدینؒ  بیمار تھے اور لڑائی میں حصہ نہیں لے سکے تھے۔ شاید اس میں اللہ تعالیٰ کی یہی منشا ہو کہ وہ  چاہتا تھا کہ وہ حسینؓ  کی  نسل کو آگے بڑھانے کے لیے زندہ رہیں۔ جب ان سے ان کی اداسی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا: ’’ حضرت  یعقوب علیہ السلام  اپنے بیٹے یوسف   علیہ السلام کے کھو جانے پر آنکھیں سفید  ہوجانے تک روتے رہے  جبکہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ  یوسف  کا انتقال ہوگیا ہے یا وہ زندہ ہیں۔ میں نے اپنے ایک درجن  سے زائد قریبی رشتہ داروں کو ایک دن میں  شہید ہوتے دیکھا ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ میرا غم کبھی ختم ہو گا؟‘‘[1] پھر بھی حضرت زید بن العابدینؒ   نہایت منکسرالمزاج، نہایت ف سخی  اور سب سے محبت کرنے والے شخص تھے۔ وہ  ایک جید عالم بھی تھے بلکہ  ان کے گھر انے میں چار ممتاز  علما ئے کرام موجود تھے یعنی حضرت علی زین العابدینؒ  خود، ان کے بیٹے محمد باقرؒ، جو  عمر میں زیدؒ سے کافی بڑے تھے اور اپنے والد  کی موت کے بعد ان کے دوسرے  مرشد بھی بنے، اور محمد باقرؒ کے بیٹے حضرت  جعفرؒ، جو الصادق کے لقب سے مشہور ہوئے ۔  اس کتاب میں ان کا تذکرہ بھی موجود ہے۔

حضرت زید ابن علیؒ  نے قرآن اور حدیث دونوں  کا علم حاصل کیا اور ان میں مہارت حاصل کی۔ انہوں نے اسلامی علوم کی شاخ فقہ، یا اسلامی قانون، میں بھی کمال حاصل کیا۔ وہ  تلاوت کلام پاک کے ان مختلف طریقوں  کے ماہر ہونے کی حیثیت میں بھی  شہرت رکھتے   ہیں جو ان کے دادا حضرت علی  بن  ابی طالبؓ  سے منسوب کئے جاتے ہیں۔

حضرت زیدؒ کے والد    وسیع علم اور گہری علمی  بصیرت  والے عالم کے طور پر معروف ہیں   ہر معاملے میں وہ قرآن و سنت سے استدلال فرماتے تھے۔  نئے مسائل میں وہ  علمی استحقاق یا  اجتہاد  کا راستہ اختیار کرتے تھے۔  جو طریقہ وہ استعمال کرتے تھے اس کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ اس وقت یہ  بالکل ابتدائی مرحلے میں تھا اور نیا طریقہ تھا۔  البتہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ    علی زین العابدین ؒ    عراق اور مدینہ کے  اپنے ہم عصر علماء کے خیالات کا مطالعہ  کرتے تھے۔ لہٰذا   وہ     تابعین کے علمی کام سے نزدیک تھے جو ان کے ہم عصر تھے مثلاً:  سعید ابن المسیب (متوفی 117 ہجری)، زید ابن اسلم اور سعید ابن جبیر (متوفی 93 ہجری)، نافع (متوفی 95 ہجری)۔

ظاہر ہے    جس کے والد زین العابدینؒ جیسی علمی شخصیت   ہوں تو ایسی اولاد کا  علمی راہ پر گامزن ہونا  کوئی تعجب کی بات نہیں جس کا مظاہرہ ان کی پوری زندگی میں ہوتا رہا۔  مگر جس وقت وہ محض 14 سال کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہوگیاجس  کے بعد ان کی تعلیم و تربیت بڑے بھائی حضرت باقرؒ کی نگرانی میں ہوئی جو  زیدؒ اور جعفر صادقؒ دونوں کے استادرہے۔   دونوں ہی نے بحیثیت امامَ  عظیم شہرت پائی اور انہوں نے دو فقہی   مسالک کی بنیاد ڈالی  جن پر دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان  عمل کرتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  یہ دونوں علمائے کرام  جن کا نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ  اور پھر رسول کریم ﷺ سے  جا کر ملتا ہے، کیا انہوں نے اپنے آپ کو ان روایات تک محدود رکھا  تھا جو وہ  اپنے اجداد سے سنتے چلے آئے تھے؟  یہ    ایک حقیقت ہے کہ ان کے والد  حضرت علی زین العابدینؒ نے وہی کچھ آگے بڑھایا جو انہوں نے اپنے والد حضرت حسینؓ سے سنا تھا۔ اور حسینؓ نے وہی کچھ روایت کیا جو انہوں نے اپنے والد  گرامی حضرت علی کرم اللہ  وجہہ سے سنا تھا۔   اس کا  ایک ناقبل تردید جواب  ہمیں اس واقعے میں مل جاتا ہے  جس کے مطابق  امام ابوحنیفہ ؒ نے خلیفہ  وقت کے  حکم   پر جعفر صادقؒ  کے سامنے چالیس نہایت پیچیدہ مسائل  پر مبنی سوالات   پیش کئے۔جعفر صادقؒ نے ہر سوال کے  جواب میں مدینہ اور  عراق  کے  علماءکےخیالات   پیش کرنے کے ساتھ ساتھ  اپنے خیالات بھی پیش کئے  جن میں سے کچھ ان   دونوں نقطہ ہائے  نظر سے مطابقت رکھتے تھے اور کچھ  میں دونوں ہی سے اختلاف تھا۔  اس پر امام ابو حنیفہ  نے ایک معیار متعین کردیا  کہ : ’’ سب سے بڑا عالم وہ ہے جسے علماء کے  علمی اختلاف کا علم ہو۔‘‘  [2]

اگر ہم ان تمام بیانات کو  سامنے رکھ کر ان پر غور کریں   تو   اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ  اہل  بیت    اور نبی آخرالزماںﷺ کی بیٹی حضرت  فاطمہؓ   کی نسل سے تعلق رکھنے والے علماء تمام  وسائل سے  علم حاصل کرنے کے قائل تھے۔اس وقت مدینہ میں بہت سے  بڑے  علماء موجود تھے جن کا تعلق تبع تابعین کی نسل سے تھا۔ زید ابن علیؒ اور بالخصوص ان کے بھتیجے، جعفر الصادقؒ جن کے  علماء  اور دیگر لوگوں سے تعلقات بہت وسیع تھے، دونوں نے ان علماء سے تعلیم حاصل کی تھی۔ تاہم  حدیث روایت کرتے وقت ان کا تمام تر زور ان احادیث پر ہوتا تھا جو انہوں نے اپنے  اپنےوالد  گرامی سے سنی تھی  تاکہ اسلامی علوم کی اس شاخ کو محفوظ کیا جا سکے۔

حضرت زیدؒ کا علم بہت وسیع تھا۔ ان کے مکالموں اور گفتگو کی جو  جزئیات  آج ہمارے پاس موجود ہیں  اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ  علیہم اجمعین کے خیالات کا مطالعہ بھی کیا تھا اور اس میدان میں بھی ان کا علم بہت وسیع اور گہرا تھا۔  اتنا ہی نہیں انہوں نے فقہ کی تعلیم بھی  کئی  علماء سے حاصل کی، تاکہ  اپنے اندر ایسی   بصیرت پیدا کر سکیں جو کسی سے کم نہ ہو۔ مثال کے طور پر، ان کا یہ نظریہ تھا کہ تمام مومنین نکاح کے لحاظ سے برابر ہیں۔ انہوں نے  ان خیالات کا اظہار اس وقت کیا  جب کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ   ایک  غیر عرب مرد  اور عرب عورت  کے درمیان نکاح ناجائز ہے، خواہ دونوں مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے اہل علم سے استفسار فرمایا : ’’اگر ایسا نکاح ہو جائے، جسے  آپ ناجائز سمجھتے  ہیں ، اور عورت کی اولاد ہو جائے، تو کیا اس بچے کی نسبت اس مرد کی طرف کی جائے گی یا نہیں؟‘‘  جواب اثبات میں ملنے پر حضرت زیدؒ نے ، فرمایا کہ پھر نکاح بھی جائز ہے، کیونکہ اگر یہ نکاح حرام ہوتا تو اس کی اولاد کی نسبت تسلیم نہ کی جاتی۔

اس کے بعد انہوں نے   مزید کئی ایسے   سوالات  پوچھے  جن سے  ان کے موقف کی  تائید ہوتی تھی۔ مثلاً  آپؒ نے فرمایا: ’’فرض کریں  ، اگر  ایک مرد  مباشرت سے پہلے  عورت کو طلاق دے دے، تو کیا وہ عورت  طے شدہ مہر کا نصف حصہ پانے کی حق دار ہو گی؟ اور اگر مباشرت ہوجائے  تو کیا   عورت اس پورے مہر  کی مستحق ہوگی جس پر اس کے شوہر نے اتفاق کیا تھا   یا اسے معاشرے میں  اس کی حیثیت کی مناسبت  سے   مہر کی  اوسط رقم ادا کی جائے گی؟   اس معاملے میں  اس غیر عرب  شوہر    سےتین مرتبہ طلاق دیے  جانے کے بعد ،   کیا  اس کا     ا س  سابق شوہر سے دوبارہ نکاح  کرنا جائز ہوگا؟   اور اگر اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو کیا وہ وراثت میں  بیوی کو ملنے والے پورے حصے کی حقدار ہوگی؟ اور اگر اس کا باپ یا بھائی اس شادی کی اجازت دے دیں تو کیا یہ جائز ہوگی؟ [3]  اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ان تمام سوالوں کے جواب  اس کے نکاح کے  بالکل جائز ہونے اور اس کی صحت کی تصدیق  پر منحصر ہوں گے۔      یہی موقف بعد میں امام مالک  ابن انسؒ نے  بھی اختیار کیا جو زید ؒ کے ہم عصر تھے۔

مدینہ کے مشہور علماء سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد، زید بن علیؒ   بصرہ تشریف لے گئے، جہاں ان کی ملاقات واصل بن عطا (متوفی ۱۳۱ ہجری) اور دیگر نمایاں شخصیات سے ہوئی۔ واصل زید کے ہم عمر تھے،  مگر اس وقت   وہ  بڑی شہرت حاصل کر چکے تھے۔  اس  زمانے میں ہم عمر علماء کا ایک دوسرے  کے زیر تعلیم ہونا  غیر معمولی  بات نہیں تھی  بالخصوص  جب وہ مختلف شعبوں میں  اختصاص  رکھتے ہوں۔  فقہ اور شرعی معاملات میں  اختصاص حاصل کرنے  کے بعد زید ، علم کلام کی بنیادی باتیں سیکھنے کے خواہاں تھے، اور واصل اس میدان کے مشہور ماہر تھے۔ تاہم، شاید  یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ان دونوں کے درمیان  یہ ملاقات سیکھنے اور سکھانے کی بجائے ہم پلہ علمی تبادلہ خیال کی  نوعیت کی تھی۔ بہت سے  بڑے علماء نے زیدؒ کے  اعلیٰ علمی کارناموں کا اعتراف کیا ہے اور ان  سے علم  بھی حاصل کیا  ہے۔ ان میں  سے ایک امام ابو حنیفہؒ  بھی  تھے،  جو  دو سال تک زید کے طالب علم رہے۔

واصل بن عطا وہ عالم تھے جن کے  پیش کردہ نظریات کی بنیاد پر ’’معتزلہ‘‘ کے نام سے معروف علم کلام کا مکتبہ فکر وجود میں آیا، جس  کا اسلامی فکر پر بہت  گہرا اثر  پڑا۔  اپنے عقائد  اور خیالات کی بنیاد پر زید بن علی   بظاہر  معتزلہ مکتبہ فکر کے قریب   تھے۔  دونوں عالموں کے درمیان نزدیکی دوستی قائم ہوگئی  اور غالباً جس چیز نےاس دوستی کو مزید مستحکم بنانےمیں مدد دی وہ ’’امر بالمعروف‘‘ اور’’ نہی عن المنکر‘‘  جیسے اصول پر زور دینے میں    دونوں کی راست بازی  تھی[4]۔ واصل اس اصول کو عقیدہ اسلام  کےاہم ترین اصولوں میں سے ایک سمجھتے تھے۔  زید کی   اپنی زندگی اور موت اس  بات کا ثبوت ہے کہ وہ اسے کتنی اہمیت دیتے تھے۔

یہاں مناسب ہوگا کہ زید کی چند ذاتی خصوصیات کا ذکر کر دیاجائے۔ وہ اپنی  غیر متزلزل  دیانت داری،  جس بات کو حق سمجھتے تھے  دو ٹوک انداز میں اس کا اظہار  ،  میدان جنگ میں  بے مثال  شجاعت ،اور  نا مساعد حالات میں صبر  و شکر کے لیے مشہور تھے۔ وہ  اپنی   ذہانت،  فہم و فراست، ادبی ذوق و علم، اور  فرد شناسی کے لئے بھی مشہور   اور شکل و صورت  کے اعتبار سے  دل آویز اور باوقار شخصیت شخصیت کے مالک بھی تھے۔   اپنے شناساؤں اور اقربا میں انہیں نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

ان  کے حالات  زندگی سے ان کے دو اوصاف    یعنی ان کی جرات اور اخلاص  خاص طور پر ابھر  کر سامنے  آتے ہیں ۔   ہمیں اس جرات و ہمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ  خلیفہ وقت کے تذلیل آمیز رویے  پر خاموش نہیں رہتے مگر اسی کے ساتھ ساتھ وہ خلیفہ کو یہ کلمات واپس لینے کا موقع دیتے  ہیں۔  جب خلیفہ ان سے  جواب طلب کرتا ہے تو  اس وہ اپنی بات پرزور دار  انداز میں کہتے ہیں، باوجود اس کے کہ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ اس سے تعلقات ہمیشہ ہمیش ن کے لئے خراب  ہوجائیں گے۔

ہم یہاں پر اس واقعے کی تفصیلات بیان کردیتے ہیں۔ جب ان کے حامیوں نے  خلیفہ سے مفاہمت کا راستہ نکالنے کے لئے حضرت  ابو بکر ؓ  اور  حضرت عمر بن خطابؓ  کی کے خلاف تبرا  کر نے کا مشورہ دیا تو انہوں نے اپنا نقطہ نظر پوری ایمانداری کے ساتھ ان کے سامنے بیان کردیاباوجود اس کے کہ  انہیں  اس بات کا پوری طرح ادراک تھا کہ  ایسا کرنے سے وہ سب انہیں چھوڑ کر چلے جائیں گے۔[5]  اور بالآخر ہوا بھی یہی۔ وہ ان سے لاتعلقی کا  اظہار  کر کے اور تنہا چھوڑ کر کے چلے گئے ۔ یہ لوگ ’’رافضی‘‘  نام سے معروف ہوگئے جس کا مطلب مسترد کرنے والا ہوتا ہے۔  اس طرح   زیدؒ ایک چھوٹی سی جماعت کے ساتھ رہ گئے مگر پندرہ ہزار سے زائد کی ایک بڑی فوج  کا  مقابلہ کیا۔ حق پر  عزم و استقلال کے ساتھ قائم رہنے کی ان کی خوبی، خواہ اس سے ان کے ذاتی مفادات  ہی  متاثر کیوں نہ ہوں، ایسی  خوبی تھی جس کی وجہ سے   اعلیٰ انسانی اوصاف کی قدر کرنے والا ہر شخص انہیں عز ت و احترام کی نظر سے دیکھتا تھا  ۔ ایک مرتبہ ان رافضیوں میں سے کچھ لوگ حضرت جعفر صادق ؒ سے ملنے گئے اور ان سے کہا کہ وہ ان کے چچا زید بن علی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔  اس پر انہوں نے فرمایا: ’’ جو زید سے لاتعلقی کرے  اللہ ایسے شخص سے لاتعلقی کرے ۔ اللہ کی قسم! وہ ہم میں سب سے زیادہ قرآن فہم، اسلام  کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے والے، اور سب سے زیادہ مہربان اور سخی  شخص تھے۔ دنیا سے ان کے رخصت ہوجانے کے بعد  ان  جیسی خوبیوں والا کوئی  دوسرا شخص ہمارے درمیان  نہیں رہا۔‘‘[6]

ان کے اخلاص نے ا نہیں   اپنے دقت کے سب سے زیادہ خدا ترس لوگوں میں سے ایک بنادیا تھا۔  کہا جاتا ہے کہ  انہوں  نے اپنی زندگی میں کبھی گناہ نہیں کیا تھا۔ مزید برآں، اگر وہ یہ  محسوس کرتے  کہ کسی دوست کو ان کی کسی بات سے تکلیف پہنچی ہے، تو وہ خود جا کر معذرت کر لیا کرتے تھے،   خواہ  وہ یہ سمجھتے ہوں  کہ غلطی ان کی نہیں بلکہ دوسرے شخص  کی ہے۔  یہ حصول علم کے تئیں ان کا اخلاص ہی  تھا جس نے انہیں  تلاش علم کے لئے  دور  دراز   کا  سفر  کرنے  اور علماء سے ملاقات کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ حالانکہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ  جس ماحول اور جس انداز میں ان کی پرورش ہوئی  تھی  وہ انہیں اسلام کی تعلیمات دینے کے لئے کافی تھی۔  مگر وہ  اسلامی علوم میں علماء کے مختلف رجحانات ، اختلافات اور اپنے اپنے حالات میں ان کے تجزیوں  کی بنیاد کا گہرا مطالعہ کرنا چاہتے تھے۔

ان  کی دلیری اور دیانت داری کا مظاہرہ ان کی ایک اور خصوصیت میں ہوتا تھا اور وہ مشکل حالات میں ان کا صبر تھا ۔ یہ وہ خوبی ہے جس  کی تعریف اللہ تعالیٰ کلام پاک میں خود  کرتا ہے اور مومنین کو تمام حالات میں اسے اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ جب لوگ ایسی حرکتوں کا ارتکاب کرتے تھے جن کا واضح  مقصد  زید ؒ کو پریشان کرنا ہوتا تھا ، تو وہ  اس وقت بھی ایسے عناصر کے ساتھ   باوقار انداز، صبر و برداشت  اور خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے۔

زیدؒ   میں اعلیٰ ادبی ذوق اور مناظرہ کرنے کی  غیر معمولی صلاحیت  موجود تھی ۔ اس کا اپنے چچا زاد بھائی جعفر بن حسن بن الحسن کے ساتھ مسلسل مناظرہ جاری رہتا تھا۔   اہل ادب ان کا  مناظرہ  خاص طور پر سننے  آتے تھے۔ جو کچھ یہ دونوں  ارشاد فرماتے ، لوگ  قلم بند کر لیا کرتے تھے کیونکہ دونوں  کا  انداز  نہایت فصیح و بلیغ ہوتا تھا اور  مناظرہ ختم ہونے کے بعد بعض سامعین  آپس میں اپنے نوٹس   ملا لیا کرتے تھےتاکہ وہ ان کی تقاریر  کے اقتباسات کو دستاویزی  شکل میں محفوظ کر سکیں جو ادبی لحاظ سے  بہت ہی معیاری ہوتی تھیں۔

زید ؒ کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ  وہ اپنی علمی معلومات کے ذخیرے  ، گہری فکری صلاحیت اور بصیرت  کو ایک ساتھ استعمال کرتے تھے  جس سے انہیں تمام سوالوں پر گہرائی کے ساتھ سوچنے اور  درست جواب   دینے میں مدد ملتی تھی۔

ان کی بصیرت صرف علم  سیکھنے اور سکھانے ہی تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ کسی بھی صورتحال کا  گہرا تجزیہ کرنے اور نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت کے  حامل تھے۔  البتہ چند مٹھی بھر حمایتیوں کو ساتھ لے کر ان کا ایک بڑی اور مضبوط فوج کے ساتھ مقابلہ کرنا ایک عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔  مگر جب ہم  اس پس منظر میں رونما ہونے والے واقعات پر غور کرتے ہیں  تو ہمارے سامنے یہ بات آشکارا ہو جاتی ہے کہ  انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ انہیں ملنے والی حمایت میں کوئی تزلزل پیدا نہ ہو گا ۔  وہ اس بات پر مصر ہوتے تھے کہ لوگ ان کی بیعت مسجد میں کریں  تاکہ وہ وعدے کے پابند رہیں۔  مگر جب لوگ پیٹھ دکھا تے اور ان کا ساتھ چھوڑ کر چلے جاتے تو انہیں   یہ احساس ہوتا تھا کہ انہیں ان سے بھی اسی طرح پیٹھ موڑی گئی ہے جس طرح ان کے  دادا حسینؓ کو چھوڑ  دیا گیا تھا اور یہ کہ  اس مقابلے کا انجام بھی ان کے دادا ہی کی طرح ان کے وفادار ساتھیوں کی شہادت کی صورت میں نکلے گا۔  مگر ان میں یہ جذبہ  موجود  رہا کہ حق کے دفاع کے لئے وہ اس کی قیمت ادا  کرنے سے  نہیں بچ سکتے۔

زید بن علیؒ   کا مکتبہ فکر انہی کے نام سے منسوب ہے۔  یہ شیعہ مسلک کا وہ مکتبہ فکر ہے جو سنی مکاتب فکر کے سب سے زیادہ نزدیک ہے۔ یمن میں آج بھی  زیدی مکتب  فکر کے ماننے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے ۔ غالباً   یمن میں زیدی مکتبہ فکر کے ماننے والوں کی  تعداد کل آبادی کی نصف ہے۔  یوں تو اس مکتب فکر  کی ترقی و ترویج  کے لئے  بعد کے کئی علماء نے   اہم خدمات انجام دیں ، مگر اس کی اصل بنیاد زید ؒ ہی  کی علمی خدمات و افکار ہیں ۔  اس  اسلامی فقہ کے فروغ میں زید ؒکے بچوں اور پوتوں نے   نمایاں  کردار ادا کیا۔ علی ؓاور فاطمہؓ کی نسل سے تعلق رکھنے والے حسنی علماء نے بھی اس مکتب میں خاصا کردار ادا کیا اور اسے مسلم دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلایا۔ امام ناصر الاطروش ( متوفی 304 ہجری)   ہجرت کر کے وسطی  ایشیا  چلے گئے، جہاں کے لوگ غیر مسلم تھے۔ انہوں نے وہاں اسلام کو پھیلایا اور ایک ریاست قائم کی، جس میں زیدی فقہ کو نافذ کیا۔

ہمارے پاس ایک معروف کتاب ’’المجموع‘‘ ہے، جو زید بن علی سے منسوب  کی جاتی ہے اور جسے  زیدی مکتب فکر کا ایک بنیادی جزو  سمجھا جاتا ہے۔  تاہم اس کتاب کے زید بن علیؒ  سے  منسوب کئے جانے  پر کچھ اعتراضات بھی اٹھائے گئے ہیں، خصوصاً اس وجہ سے کہ یہ کتاب محض  ایک  عالم نے روایت کی ہے جو ایک طویل عرصے تک  امام زیدؒ  کے شاگرد رہے   تھے۔ تاہم شیخ محمد ابو زہرہ ؒ مرحوم نے ان تمام اعتراضات پر بحث کی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اعتراض  اس لائق نہیں ہے جس  کی  بنیاد پر شک کیا جا سکے  کہ زید بن علیؒ  ہی اس کتاب کے مصنف تھے، جسے ہماری تاریخ میں فقہ کی پہلی تدوین تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، زیدی علماء نے اس کتاب کو ہمیشہ اپنے مکتب فکر کی ایک بنیادی تصنیف قرار دیا ہے۔  بہرحال، ابو زہرہ کا خیال ہے کہ غالباً زید نے خود اپنے ہاتھ سے یہ کتاب نہیں لکھی تھی۔ ان کے زمانے میں کم ہی علما ء کتابیں خود اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ۔ اس وقت تعلیم و تعلم کا زیادہ تر انحصار زبانی گفتگو پر ہوتا تھا۔ چنانچہ ممکن ہے کہ یہ کتاب اس وقت لکھی گئی ہو یا اس کے کچھ حصے اس وقت نقل کیے گئے ہوں جب وہ درس  دیا کرتے تھے یا سوالات کے جوابات  دیا کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ اس کی ترتیب زید ؒ کے شاگرد خالد عمرو بن خالد واسطیؒ  نے دی ہو،  جو  مدینہ میں ان کے ساتھ رہے، اور عراق و دیگر مقامات کے سفر میں  بھی ان کے ہمراہ تھے۔[7] بلطجی نے  ان شبہات  پر ایک طویل باب وقف کیا ہے کہ آیا ’’المجموع‘‘ واقعی زید کی تصنیف ہے یا نہیں، اور وہ  بھی بالکل یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ:[8]

’’ہم سمجھتے ہیں کہ ابو خالد نے امام زید سے سن کر مختصر اور  متفرق موضوعات پر مشتمل کچھ تحریریں ضرور لکھی ہوں گی؛ لیکن باقی کتاب میں انہوں نے اپنی یاد داشت پر انحصار کیا ہے اور  وہ باتیں قلمبند کی ہیں  جو انہوں نے بار بار اور کثرت سے زید سے سنی  ہوں گی ، اور جن کے انہوں نے واضح طور پر حوالے دیے  ہیں۔  زید کی وفات کے بعد ابو خالد نے وہ مواد بھی  شامل کرلیا ہوگا جو   انہوں نے زید کی زندگی میں ان سے سن کر نقل کرلیا ہوگا۔ ، پھر اسے فقہی   موضوعات کے لحاظ سے ابواب  کی شکل میں ترتیب دیا ہوگا اور یوں ’’المجموع‘‘ وجود میں آئی۔ ابو خالد  کے ذریعے اس کے ترتیب دیے  جانے سے اس  حقیقت  پر کوئی فرق  نہیں  پڑتا کہ ’’المجموع‘‘ زید ہی کی کتاب ہے، کیونکہ اس کا تمام مواد انہی کا ہے۔[9]

یہاں  بیسویں صدے کے ایک ممتاز عالم  شیخ محمد ابو زہرہ ؒ کے الفاظ نقل کرنا   غیر مناسب  نہ ہو گا۔ وہ کہتے ہیں:
’’کسی  دوسرے شخص  کو وہ مقام حاصل نہیں جو   شیعہ اور سنی علماء سمیت ، تمام مسلمان  یکساں طور پر زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ  کو   بحیثیت ایک عظیم عالم کے دیتے ہیں اور ان کا  احترام کرتے ہیں ۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ  ایک بڑے عالم اور امام تھے۔‘‘[10]

  ’’المجموع‘‘  کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ایک فقہ  پر مبنی ہے  اور دوسرا احادیث رسولﷺ پر۔ لیکن اس کتاب میں شامل یا نقل کی گئی تمام احادیث زید ؒنے اپنے والد علی زین العابدین ؒسے روایت کی ہیں، جنہوں نے  یہ احادیث حضرت حسینؓ سے، انہوں نے    حضرت علی ؓسے، اور انہوں نے براہ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھیں۔  اس  خاندانی و علمی پس منظر کے باوجود  زیدؒ اور ان کے والد حسین ؓ  تابعین سے سیکھنے اور ان کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کے  مشتاق رہتے تھے۔ جہاں تک  زیدؒ  کے صرف اپنے آباء و  اجداد سے مروی احادیث کو نقل کرنے کا تعلق ہے ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ یہ احادیث محفوظ  کردی جائیں تاکہ ضائع نہ ہو جائیں۔ ان  احادیث کا موازنہ  امام بخاریؒ،  امام مسلمؒ اور دیگر کی چھ مستند احادیث کی کتب کے ساتھ   کرنے سے  معلوم ہوتا ہے کہ ’’المجموع‘‘  میں شامل تمام احادیث مستند ہیں اور  جن کی تصدیق  ان احادیث سے ہوجاتی ہے جو ان مجموعوں میں موجود ہیں۔ درحقیقت، زیدی علماء ان مجموعوں کو مستند مانتے ہیں اور اکثر اپنے فتوے   ان ہی کی بنیاد پر دیتے  ہیں۔ لہٰذا، زیدی فقہ سنیوں کے چار فقہوں یعنی حنفی، مالکی ، شافعی اور حنبلی   مکاتب فکر کے بہت نزدیک ہے۔[11]

دیگر مکاتب کی طرح فقہ زیدیہ  بھی قرآن  ہی کو فتووں کی بنیاد بنانے کو اولین ترجیح دیتا ہے۔  ان کے نزدیک سنت دوسرے درجے پر آتی ہے،  اس میں بھی وہ  آپﷺ کی سنت یا    دیگر  لوگوں کے ذریعے کئے گئے افعال کے لئے آپﷺ کے اجازت  دینے کے مقابلے میں آپﷺ   کی احادیث کو زیادہ  اہمیت دیتے ہیں۔ جب قرآن یا سنت میں کسی مخصوص مسئلے پر کوئی واضح حکم نہ  ملے  تو قیاس  کا  طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔یہ  کا طریقہ   ایسے مسائل  پر فتوہ دینے کے لئے استعمال کیا جاتاہے  جس  سے متعلق قرآن یا   حدیث میں واضح حکم   موجود نہ ہو۔ ایسے فتوے کے لئے کسی اورمسئلے پر بیان کی گئی حدیث کو بنیاد بنایا جاتا ہے، بشرطیکہ دونوں میں وجہِ حکم ایک جیسی ہو۔ مثال کے طور پر، گنے کا رس جو خمیر بن کر نشہ آور ہو گیا ہو، اسے ممنوع قرار دیا جاتا ہے حالانکہ قرآن یا سنت میں اس کا کوئی واضح ذکر نہیں۔ یہ حکم شراب  سے متعلق قرآن میں موجود حکم کی بنیاد پر قیاس کے ذریعے اخذ کیا گیا ہے، کیونکہ دونوں میں نشہ آور ہونا مشترک ہے۔ زیدی فقہ  میں قیاس   کے تحت  استحسان یا رجعت پسندانہ تشبیہ    کو شامل کیا جاتا ہے۔ اس میں افراد یا معاشرے کے مفادات کو بھی فتوے کی بنیاد بنایا جاتا ہے بشرطیکہ  یہ شرعی احکامات سے مطابقت رکھتے ہوں۔  اسے ’’مصالح مرسلہ‘‘  کہا جاتا ہے۔

جب  فتوہ دینے کے لئے ان پانچوں ذرائع  میں سے کچھ بھی استعمال نہ ہو سکے ، تو پھر معقول استدلال  تلاش کیا جانا چاہئے ۔ اس معاملے میں، زیدی مکتب فکر معتزلہ کے ساتھ ہم آہنگ ہے، لیکن عقلی استدلال کو جو درجہ وہ دیتے ہیں فقہ زیدیہ اس میں ان سے مختلف ہے۔ معتزلہ قیاس اور دوسرے طریقوں کو مسترد کرتے ہیں، اور  جواب  صرف قرآن، سنت اور معقول استدلال   سے کرتے  ہیں۔

امام زیدؒ کے بعد بہت سے ممتاز علما آئے جنہوں نے زیدی فقہ کو مزید فروغ دیا۔ انہوں نے بھی اسی طریقۂ کار کو اختیار کرتے ہوئے اجتہاد، علمی کاوش اور صوابدید کے راستے کو اپنایا۔ ان میں سے اکثر علما امام تھے یا حضرت علیؒ اور نبی اکرم ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے ذریعے اہلِ بیت سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں قاسم الرسی رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 242 ہجری) اور ان کے پوتے یحییٰ بن حسین  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 298 ہجری) کے نام نمایاں ہیں۔ یحییٰ بن حسین امام الہادی  رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے معروف ہوئے، اور یمن میں ایک طویل عرصے تک “قرامطہ” کے نام سے مشہور منحرف فرقے کے خلاف برسرِ پیکار رہے۔ وہ فقہ  زیدیہ کے ممتاز عالم تھے۔

ناصر الاطروش (متوفی 304 ہجری) بھی ایک جلیل القدر زیدی عالم تھے، جنہوں نے ایران کے مشرق میں واقع ایک غیر مسلم علاقے، دیلم، میں قیام کیا اور وہاں ایک اسلامی ریاست قائم کی۔

گزشتہ کئی صدیوں کے دوران زیدی علما ء اور ان کے پیروکار مسلم دنیا کے مختلف حصوں میں آباد رہے۔ آج یہ مکتبِ فکر زیادہ تر یمن میں پایا جاتا ہے، جہاں غالباً آدھی سے زیادہ آبادی زیدی فقہ کی پیرو ہے، جب کہ باقی شافعی مکتب سے تعلق رکھتے ہیں۔

جب ہم زید ؒ کے علمی  استدلال کا مطالعہ کرتے ہیں، تو  سامنے  ایک بڑے عالم کو پاتے ہیں ، جن کی دیگر مکاتب کی  فکر اور رجحانات  پر بھی گہری نظر ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ     وہ اپنی   آزادانہ سوچ رکھتے ہیں۔ یہی  آزاد فکر   انہیں  حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی نسل سے تعلق رکھنے والے دیگر علماء سے   ممتاز و منفرد بناتی  ہے۔  یوں تو ان کے ہم عصر اور پیش رو   مثلاً جعفر صادقؒ ، محمد باقرؒ  اور علی زین العابدینؒ،  خلیفہ اول حضرت  ابوبکر ؓاور خلیفہ دوم حضرت عمرؓ  کا بہت احترام کرتے تھے، لیکن اس احترام کو علمی بنیاد فراہم کرنے والے  زید ؒ تھے ۔  ان کے نزدیک  اسلامی ریاست میں یہ  بات قابل قبول ہے کہ ایک کم تر شخص امامِ کل یا خلیفہ بنے، اگرچہ کوئی اور شخص اس کام کے لیے زیادہ موزوں ہو  بشرطیکہ  یہ فیصلہ مسلم معاشرے کے مفاد میں ہو ۔

زیدؒ   اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ    خلیفہ  چہارم حضرت علی بن ابی طالبؓ تمام صحابہ میں نبی کریم ﷺ کے بعد خلیفہ  بننے کے سب سے زیادہ موزوں تھے ، یعنی  وہ   خلافت کے لئے حضرت علیؓ کو حضرت  ابوبکرؓ اورحضرت  عمرؓ سے بہتر سمجھتے تھے۔  مگر انہیں اس  بارے میں  کوئی اشکال نہیں تھا   کہ  حضرت ابو بکرؓ  کو  خلیفہ  منتخب کرنا بالکل درست  فیصلہ تھا، اور ان کی بیعت  بغیر کسی اعتراض کی متفقہ طور پر کی گئیتھی۔ اس کی وضاحت   وہ اس طرح کرتے ہیں:

’’علی بن ابی طالبؓ  تمام صحابہ میں سب سے بہتر تھے، لیکن ابوبکر ؓ کو  ایک خاص مصلحت کی بنیاد یعنی ممکنہ بغاوت کو روکنے  اور امن قائم رکھنے کے لئے خلیفہ منتخب کیا گیا۔ نبی ﷺ کی زندگی کے دوران ہونے والی جنگوں کی یاد  لوگوں  کے ذہنوں میں  تازہ تھیں۔ علیؓ کی تلوار ابھی بھی مشرکین کے خون سے تر تھی اور  لوگ  ان سے بدلہ لینا چاہتے تھے۔ لہٰذا وہ (علیؓ) شاید مقبول انتخاب نہ ہوتے اور لوگ انہیں قبول نہ کرتے۔ اس لیے بہتر یہ تھا کہ ایسے شخص کو خلیفہ بنایا  جائے جو نرم خو  و  بردبار   ہو اور اسلام کے لئے اس کی  خدمات کی ایک طویل تاریخ  ہو۔ نیز وہ نبی ﷺ کے قریب بھی رہا ہو۔ ہمیں صرف اتنا یاد رکھنا چاہیے کہ جب نبی ﷺ کی آخری بیماری کے دوران ابوبکرؓ نے عمرؓ کو اپنا جانشین چنا، تو لوگوں نے اس فیصلے پر سوال اٹھایا،  یہ کہہ کر کہ : ’ آپ ایسے شخص کو  خلیفہ بنارہے  ہیں جو سخت اور سخت گیر ہے۔۔۔‘‘‘[12]

شیخ محمد ابو زہرہ کہتے ہیں کہ  اس  بیان سے  تین نکات کی تصدیق  ہوتی ہے:

  1. ایسا کوئی واضح یا غیر واضح اشارہ موجود نہیں تھا کہ حضرت علیؓ کو نبی اکرم ﷺ کا جانشین مقرر کیا گیا ہو۔ جانشینی کا فیصلہ مسلمانوں  پر چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ وہ اپنی مرضی سے انتخاب کریں؛
  2. زید نے واضح طور پر یہ رائے دی کہ حضرت علیؓ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہ سے افضل تھے۔ ان کی اعلیٰ حیثیت کی بنیاد  نبی ﷺ سے ان کی  رشتہ داری  اور آپﷺ  کا چچازاد بھائی اور داماد  ہونا نہیں   بلکہ اسلام کے لئے ان کی طویل خدمات کی عظیم تاریخ تھی۔ لیکن اس کا  یہ مطلب نہیں کہ خلیفہ منتخب کیا جانا ان کا لازمی استحقاق تھا۔ خلافت کا منصب ایسے شخص کو دیا جانا چاہیے جو اس وقت کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے زیادہ موزوں ہو، اور امت ِ مسلمہ  میں اپنے احکاما ت کی اطاعت  کروا سکے۔ لہٰذا، خلیفہ کا انتخاب مشاورت کی بنیاد پر ہونا چاہیے؛
  3. زیدؒ کا عقیدہ تھا کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی تقرری  امت مسلمہ  کے لیے اس وقت کے حالات کے لحاظ سے ایک درست فیصلہ تھا۔[13]

زید ؒ کا  اسلامی ریاست کے حکمراں سے متعلق یہ مؤقف  بالکل واضح تھا کہ  وہ ایک ایسا شخص    ہونا چاہیے جو دیانت داری میں معروف ہو، اور ترجیحاً حضرت فاطمہؓ  کی نسل سے ہو۔ ان کا یہ نظر یہ دیگر تمام  شیعہ مکاتب فکر سے مختلف ہے، بشمول کیسانیہ کے ، جو حضرت علیؓ کی اولاد میں سے کسی کو بھی    حکمرانی کا مستحق سمجھتے ہیں ،قطع نظر اس سے کہ والدہ کی جانب سے  اس کا تعلق کس نسل سے ہے۔    ان کی طرح امامیہ  بھی  خلافت کی مستحق حضرت علیؓ کی  اولاد  میں صرف حضرت حسینؓ کی نسل کو سمجھتے  ہیں۔   مگر زید ؒ اسے      ترجیح کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔  یعنی  اگر  امت مسلمہ  ایسا حکمران چنتی ہے جو نسباً حضرت علیؓ و فاطمہؓ کی اولاد نہیں ہے، تو انہیں ایسا صرف اس صورت میں کرنا چاہئے کہ  ان کے سامنے ایسے   واضح مفادات ہوں    جن کے بارے میں وہ لوگوں کو  قائل کیا جا سکے۔

مندرجہ بالا دلائل پر غور کرنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں   کہ شیعہ عقیدے کے برخلاف زید بن علیؓ      ائمہ کے معصوم ہونے کے بھی  قائل نہیں  تھے۔ مزید یہ کہ، اگر   کوئی شخص حضرت فاطمہؓ کے ذریعے نبی ﷺ کی  ذریت میں سے ہو   اور امام یا خلیفہ  بننے کا حقدار ہو، تو اسے اس کا دعویٰ خود کرنا چاہیے۔ چنانچہ، زید بن علیؓ نے  خود بھی ایسا ہی کیا۔

زید ؒنے تقیہ کے تصور کو بھی  ترک کر دیا  تھا جو ان کے پیش روؤں نے امام حسینؓ کی شہادت کے بعد اپنالیا تھا۔ یہ تصور کسی شخص کو یہ اجازت دیتا ہے کہ اگر اسے اپنی جان کو خطرہ لاحق ہو تو وہ خلافت کا دعویٰ کرنے سے انکار کر دے۔

مزید برآں، زیدی مکتبِ فکر دو مختلف ممالک میں دو الگ الگ اماموں یا حکمرانوں کی تقرری کی اجازت بھی  دیتا ہے، بشرطیکہ وہ  ان کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح تعاون کریں جو تمام مسلمانوں کے مفاد میں ہوں۔ بظاہر امام زید بن علیؒ نے  اس بات کو قابل قبول سمجھا کہ اگر مسلم ریاست کا حجم بڑا ہو جائے تو بہتر ہو گا کہ ہر علاقے  کا  ایک الگ حکمران ہو، بشرطیکہ وہ حکمران ایک دوسرے کو حریف نہ سمجھیں، بلکہ اتحادی ہوں۔

زیدؒ نے ایسا مؤقف اختیار کیا جو   امام مہدی، ان کی غیر موجودگی ا ور واپسی، یا ان کی شناخت کو چھپانے سے متعلق شیعہ مکتب فکر میں   بعد میں تشکیل  پاگئے۔ ان کے نزدیک، حکمران کا منصب اس لیے پُر کیا جانا ضروری ہے کیونکہ یہ  مسلمانوں  کے بہترین مفاد میں ہے۔  اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے  اس شخص کا انتخاب کیا جانا چاہئے جو اس  کام کے لئے  سب سے زیادہ موزوں ہو ، چاہے وہ  مسلم معاشرے کا  سب سے بہتر شخص نہ بھی ہو۔

ان کے یہ تمام سیاسی نظریات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ امام زیدؒ اس مؤقف کی طرف واپس جانا چاہتے تھے جو حضرت علی بن ابی طالبؓ کی زندگی کے دوران  موجود تھا۔ حضرت علیؓ نے خود کو نبی ﷺ کا جانشین نہیں سمجھا، اگرچہ ممکن ہے انہوں نے محسوس کیا ہو کہ وہ خلافت کے لئے  سب سے موزوں شخص   تھے۔ تاہم، انہوں نے    حضرت ابوبکرؓ اور  ان کے بعد حضرت عمرؓ کو  منتخب کرنے کے مسلمانوں  کے فیصلے کو قبول کیا ۔ انہوں نے اس مشاورت کے نتیجے کو بھی قبول کیا   جس میں اکثریت نے اپنا فیصلہ دیا اور حضرت عثمانؓ کو خلیفہ مقرر کیا ۔

حضرت علیؓ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی  کھل کر تعریف کرتے تھے۔ اسی طرح، زیدؒ بھی  دونوں کی بھرپور  انداز میں تعریف کرتے تھے اور انہوں نے   اس مسئلے پر  اپنا مؤقف بڑے واضح انداز میں بیان کیا۔

زید بن علی ؒکا اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک،  جس کی حکومت  125 ہجری (724–744 عیسوی) تک قائم رہی،  کے ساتھ  ایک سے زیادہ  مرتبہ آمنا سامنا ہوا  ۔ یہ آمنا سامنا  دونوں کے لیے ہی  خوشگوار ثابت نہ ہوا۔  اور  آخری  مرتبہ جو   سامنا  ہوا وہ   زیدؒ  کی شہادت پر ختم ہوا، جب حالات مکمل طور پر ہشام کے حق میں تھے۔ ان ملاقاتوں کی روایتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان محبت یا احترام  کا کوئی  جذبہ پہلے ہی   موجود نہیں تھا۔ مزید یہ کہ  ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں نے  ہشام  کے دماغ میں ڈال دیا  ہو کہ زید ؒ خلافت کے خواہشمند تھے۔

روایات میں آیا ہے کہ زید بن علی ؒ ایک بار ہشام کے دربار میں داخل ہوئے، لیکن انہیں  وہاں بیٹھنے کی کوئی جگہ نہ ملی۔ چنانچہ وہ آخر میں بیٹھ گئے۔  حالانکہ ان کا مقام بطور عالم دین اور حضرت فاطمہؓ کی نسل سے ہونے کے ناطے یہ تھا کہ خلیفہ انہیں خود آگے بلاتا۔ جب وہ بیٹھے تو فرمایا: ’’اللہ سے ڈرنے والے ہی بلند ہوتے ہیں اور جو تقویٰ سے خالی ہوں ان کی قدر گھٹ جاتی ہے۔‘‘   اس پر خلیفہ نے کہا: ’’اپنی زبان کو لگام دو! تم وہی ہو نا جو خلافت کا  خواہشمند ہے، حالانکہ تمہاری ماں ایک کنیز تھی!‘‘  زید ؒنے جواب دیا: ’’امیر المؤمنین! میں آپ کے کہے کا جواب دے سکتا ہو ں ۔ “اگر آپ اجازت دیں تو کچھ عرض کروں؟ ورنہ میں خاموشی سے بیٹھ جاتا ہوں۔”
خلیفہ نے کہا: “ٹھیک ہے، جواب دو۔”
حضرت زیدؒ نے عرض کیا:
’’ماؤں کی حیثیت کسی انسان کے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ اسماعیلؑ کی والدہ، اسحاقؑ کی والدہ کی کنیز تھیں، مگر یہ بات اسماعیلؑ کے نبی بننے اور عربوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جانے میں کوئی رکاوٹ نہ بنی۔انہی کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ ترین ہستی، حضرت محمد ﷺ کو پیدا فرمایا۔ اب کیا آپ اس کے باوجود یہ کہیں گے، جب کہ میں خود فاطمہؓ اور علیؓ کا نواسہ ہوں؟‘‘

اس کے فوراً بعد زید ؒ دربار سے اٹھ کر چلے گئے۔بعض روایات  کے مطابق ان کا جواب سننے کے بعد خلیفہ نے  خود  انہیں  دربار سے نکل جانے کا حکم دیا۔ اس پر زید نے کہا:  ’’میں جا  تو رہا ہوں، مگر ہر اس جگہ پر  میں موجود ملوں گا جہاں آپ مجھے دیکھنا نہیں چاہتے۔‘‘

اس واقعے  نے زیدؒ پر گہر اثر ڈالا۔ اس سے پہلے  وہ کئی مرتبہ عراق کا سفر کرچکے تھے جہاں انہیں  ایسا محسوس ہوا تھا کہ وہاں کے لوگوں میں ان کے خاندان یعنی نبی کریمﷺ کی اولاد کی حمایت کا جذبہ موجود ہے۔ وہاں کے لوگ بنو اُمیہ سے نفرت کرتے تھے اور کئی مرتبہ بغاوت کر چکے تھے۔  یہی وجہ ہے کہ بنو اُمیہ  عراق  کا گورنر ہمیشہ ایسے فرد کو مقرر کیا جو بے رحم اور آمرانہ مزاج کھتا ہو۔    اس وجہ سے ان میں  اُموی حکومت کے تئیں ناراضگی  پیدا ہوگئی تھی۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا جب حشام نے زید ابن علی ؒ کو   بےعزت کرنے کی کوشش کی ہو۔ اسے زید ابن علیؒ کے سفرِ عراق کی اطلاعات ملتی رہتی تھیں۔  لہٰذا حشام کو ڈر محسوس ہوا کہ کہیں زید ابن علیؒ  اموی حکومت کے خلاف بغاوت کروانے کی کوشش نہ کر ڈالیں۔  لہٰذا اس نے ان کی وفاداری کا امتحان لینے اور اگر زید واقعی  ایسا کوئی  قدم اُٹھانے والے ہوں تو   اس کی پیش بند ی کے لیے   انہیں   نئی  صورتِ حال میں ڈال دینے کا منصوبہ بنالیا۔  لہٰذا اس نے عراق  میں اپنے گورنر یوسف بن عمر ثقفی اور مدینہ کے گورنر خالد بن عبدالملک کو خط لکھا کہ وہ زیدؒ   کو رسوا کریں تاکہ لوگوں کی نظر میں ان کی عزت کم ہو جائے۔ دونوں گورنروں نے اپنی پوری کوشش کی۔ درحقیقت، زید کے  ہشام سے ملاقات کے لئے جانے کا مقصد مدینہ کے گورنر کی شکایت کرنا تھا۔ لیکن ہشام نے بار بار ملنے سے انکار کیا۔ آخرکار، اس نے زیدؒ  کو ملاقات کی اجازت دی لیکن یہ ملاقات بھی اختلافات کا باعث بنی جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔بھلا زیدؒ کے لئے بھرے مجمع میں سب کے سامنے رسوا کئے جانے سے زیادہ توہین آمیز بات اور کیا ہو سکتی تھی۔    اور یہی واقعہ ان دونوں کے  تعلق کے مکمل  خاتمے  کا سبب بنا۔

اس  کے  بعد لوگوں کی حمایت لینے کی غرض سے  زیدؒ    عراق کے شہر کوفہ  گئے  جہاں  کے لوگ ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے اور  وقت آنے پر بنو اُمیہ کے خلاف جنگ  کرنے کو تیار تھے۔ اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے اور مدد لینے کے لئے  انہوں نے دوسرے علاقوں میں بھی اپنے نمائندے بھیجے ۔ بظاہر صرف  کوفہ میں  ہی انہیں 15,000 اور باقی  عراق میں تقریباً 40,000 افراد کی بیعت  اور مکمل حمایت کی یقین دہانی مل گئی  ۔ ان حالات میں  زیدؒ  کو یقین ہو گیا کہ اگر جنگ ہوئی تو ان کے جیتنے کے قوی امکانات ہیں۔

تاہم، ہشام بن عبدالملک، اپنے گورنر سے ہٹ کر بھی، ان کی سرگرمیوں پر نہایت قریب سے نظر رکھے ہوئے تھا۔ اس نے اپنے گورنر یوسف بن عمر کو خط لکھا کہ زید خلافت لینے   کا ارادہ رکھتا ہے، لہٰذا اس پر کڑی نظر رکھی جائے اور اس کا پیچھا کیا جائے۔ اس  نے گورنر کو لکھا کہ: ’’اگر تم انہیں پکڑ لو تو ان سے وفاداری کی بیعت لے لو اور اگر وہ انکار کریں تو ان کے خلاف جنگ کرو۔‘‘

یوسف بن عمر نے    ہشام کا حکم بجا لاتے ہوئے  زید ؒ کا پوری قوت  کے ساتھ تعاقب کیا۔  لہٰذا اب زید ؒکے پاس اٹھ کھڑا ہونے اور خلافت  کے لئے اپنا دعویٰ   پیش کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہ رہا ۔ اُنہوں نے یہ کام بعد کے لئے موخر کیا ہوا تھا اور اس وقت ایسا کرنے  کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مگر اس نئی  صورتحال میں انہیں جنگ کرنے کے  لیے اپنی پوری طاقت اور حمایتیوں کو یکجا کرنا پڑا۔

ان تفصیلات  اور تاریخ کے  دوسرے ریکارڈ  سے  ایسا لگتا  ہے کہ ہشام نے کئی  مرتبہ  اس بات کو یقینی بنانے کی  کوشش کی کہ  زید بن علیؒ   مسلح بغاوت  نہ کریں۔   مگر اس  کے ساتھ ساتھ  اسے یہ بات بھی برداشت نہیں تھی کہ  زیدؒ    کو اپنی خاندانی نسبت پر فخر  ہو اور  وہ اپنی  عوامی ذلت اور ناانصافی  پر  خاموش نہ رہیں۔ غالباً  وہ چاہتا تھا کہ اُس کا گورنر زیدؒ  کو گرفتار کر کے اُن کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آئے   تاکہ اُمویوں کے لئے  زید   کے دل میں موجود  شدید نا پسندیدگی کم  ہوسکے ا اور  جو ناانصافی زید کو ان کے طرزِ حکومت میں محسوس ہوتی تھی، اُس کا ازالہ کیا جا سکے۔

زیدؒ  کو کئی قریبی رشتہ داروں نے کوفہ کے لوگوں پر بھروسا نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا اور یاد  یاد دلایا  تھا کہ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے ان  کے دادا، احسین ؓ ، اوران سے پہلے حضرت علی بن ابی طالبؓ  کو بھی  دھوکہ دیا تھا ۔ اُن لوگوں میں سب سے زیادہ واضح تنقید کرنے والا اُس کا دور کا چچا زاد بھائی، عبداللہ بن الحسن بن الحسن (متوفی 145ھ) تھا۔ اُن کے بڑے بھائی اور استاد، امام محمد باقر (متوفی 114ھ) نے بھی کئی سال پہلے اُ نہیں کوفہ کے لوگوں کے اس کردار کے بارے میں  خبردار کیا تھا۔ لیکن زید کو لگا کہ اس بار وہ لوگ اُمویوں کے خلاف لڑنے کے لیے زیادہ تیار ہوں گے۔

جب حالات فیصلہ کن مرحلے پر پہنچے، تو کوفہ کے لوگوں نے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا کہ وہ بھی اپنے پیش روؤں سے مختلف نہیں تھے۔ بظاہر عراق  کے گورنر نے زید کی حمایت نہ کرنے پر آمادہ کرنے  کے لئے تمام حربے استعمال کرڈالے ۔ چنانچہ ایک وفد زیدؒ کے پاس آیا اور کہا کہ وہ اپنے آپ کو   اُن کے خیالات و نظریات کے بارے میں مطمئن کرنا چاہتے  ہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے اُن سے پوچھا کہ حضرت  ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے ۔ زید ؒنے  دو ٹوک انداز میں ان پر واضح کردیا کہ  وہ ان کا عزت و احترام کرتے  ہیں اور  اُنہیں مسلم ریاست کے حقیقی رہنما سمجھتے ہیں  اور یہ کہ وہ  نبی ﷺ کی سنت پر چلتے تھے۔انہوں نے کہا کہ  ممکن ہے کہ  اُن کے پاس خلافت کے منصب کے لئے  سب سے مضبوط دعویٰ نہ ہو، لیکن چونکہ عوام نے اُنہیں منتخب کیا تھا، اس لیے وہ جائز حکمران تھے۔ یہ سن کر انہوں نے  کہا  کہ انہوں نے اپنی بیعتیں توڑ دی ہیں اور اب وہ  ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔

امام ابو حنیفہؒ سمیت ، جنہوں نے زیدؒ کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے کی آمادگی ظاہر کی تھی،   متعدد دانا خیرخواہوں کے لیے   کا اہل کوفہ کی یہ  وعدہ خلافی عین متوقع  تھی ۔  صورتحال کا گہرائی  سے   جائزہ لینے کے بعد جب امام ابو حنیفہؒ  کو محسوس ہوا کہ زید ؒ کو ان  کے حامیوں کی طرف سے دھوکہ ملنے والا ہے، تو انہوں نے زیدؒ کو ایک  خطیر  مالی امداد بھیجی۔ اس وقت زید شدید مشکل حالات سے دوچار تھے۔ اموی لشکر ان پر حملہ آور ہو  نے والا تھا اور  ان کے پاس صرف 218 وفادار سپاہی تھے جو خون کے  آخر ی خطرے تک تک لڑنے کے لیے تیار تھے۔ اس مختصر سے لشکر نے  اموی فوج کا واقعی  بے جگری سے مقابلہ کیا۔ ایک موقع پر تو  انہوں نے  اموی  فوج  کے ایک دستے کو  پسپا  ئی پر مجبور کردیا   اوراس کے  70 سے زیادہ سپاہیوں کو قتل کرڈالا۔   مگر تعداد کے لحاظ سے  دشمن فوج سے ان کا کوئی مقابلہ نہیں تھا  یعنی یہ  ایک  جانباز کے مقابلے میں پچاس سپاہی تھے۔ چنانچہ عددی برتری غالب آگئی اور  زیدؒ اپنے  مٹھی بھر جانبازوں کے ساتھ  شہید ہو گئے۔

اس جنگ کی تفصیلات پڑھتے وقت   ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے واقعۂ کربلا دوبارہ پیش آ رہا ہے، جس میں  نواسئہ رسول ﷺ اور زید ؒکے دادا  حضرت حسینؓ   شہید ہوئے تھے۔ ان دونوں  کا مزاج ایک جیسا تھا ۔   دونوں ہی ظلم  ہوتے دیکھنا برداشت نہیں کر سکتے تھے اور اس کے خلاف  آخر تک  سینہ سپر رہتے تھے۔ دونوں جنگوں میں ان کے دشمنوں   نے  یہ نہ سوچا کہ   یہ   جن  ہستیوں کو شہید کرنے جارہے  تھے وہ   نبی کریم ﷺ کی اولاد تھیں۔ اللہ تعالیٰ  زید ابن علیؒ  پر رحمتوں کی بارش فرمائے جنہوں نے  122 ہجری میں راہ خدا میں   جام شہادت نوش فرمایا۔

زیدؒ   نہایت   با  بصیرت  شخص تھے۔ وہ  ہشام اور مدینہ و عراق کے گورنروں کے منصوبوں کو بھانپ چکے تھے   اور انہیں  اپنے خلاف کوئی بہانہ فراہم نہ کرنے کی پوری کوشش کرتے رہے۔ مدینہ کے گورنر نے زیدؒ اور ان کے ایک  عزیز کے درمیان  تنازعے  کا فائدہ اٹھانے  کی کوشش کی تو     انہوں نے فوراً اپنے رشتہ دار سے صلح کر لی اور گورنر کی چال کو ناکام بنا دیا۔ بہت سے لوگ اس بات پر حیران ہو سکتے ہیں  کہ زید نے اہلِ کوفہ پر کیسے بھروسا کرلیا، حالانکہ انہیں  بہت سے لوگ  خبردار کر چکے تھے۔ بہرحال، انہوں نے اپنی پوری کوشش کی کہ لوگ اپنی بیعت پر قائم رہیں اس کے لئے  انہوں نے اصرار کیا کہ   بیعت صرف مسجد میں کی جائے گی تاکہ لوگ  بیعت کی سنجیدگی اور اہمیت کو سمجھ سکیں۔  یو ں بھی ان کے پاس کوئی اور چارہ  نہ تھا۔  اموی خلیفہ کے ہاتھوں زخمی کئے جانے  کے بعد جس وقت انہیں مدد کی ضرورت تھی  یہی لوگ ان کی مدد کے وعدے کے ساتھ آگے آئے۔  اللہ زید بن علی ؒ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ وہ ایک عظیم عالم ، غیر معمولی صلاحیتوں کے  مالک اور  ایک عظیم امام تھے۔

 

[1] ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، بیروت، (بغیر تاریخ)، جلد 9، صفحہ 107

 

[2] ابو زہرہ محمد، ابو حنیفہ، قاہرہ، 1997، صفحہ 66

[3] ابو زہرہ، الامام زید، دار الفکر العربی، قاہرہ، (بغیر تاریخ)، صفحہ 90  تا 91

[4] حوالۂ سابق، صفحات 38-39

[5] الذہبی، سیر اعلام النبلاء، بیروت، 1996، جلد 6، صفحات 90-91

[6] حوالۂ سابق، جلد 6، صفحہ 184

[7]  ابو زہرہ، الامام زید، حوالۂ سابق، صفحات 233-272

[8]  بلتاغوی محمد، مناہج التشریع الاسلامی فی القرن الثانی الہجری، ریاض، 1977، جلد 1، صفحات 107-134

[9]  حوالۂ سابق، صفحہ 132

[10] ابو زہرہ، حوالۂ سابق، صفحہ 71

[11] ابو زہرہ، تاریخ المذاہب الاسلامیہ، لندن و قبرص، 1987، صفحہ 684

[12]  الشہرستانی، الملل و النحل، جلد 1، صفحہ 209، حوالہ دیا گیا از ابو زہرہ، حوالۂ سابق، صفحات 80-81

[13]  ابو زہرہ، تاریخ المذاہب الاسلامیہ، حوالۂ سابق، 1987، صفحہ 668

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.