
محمد غزالی خان
آپریشن سندھور کے بعد دنیا بھر میں بھیجے گئے وفود میں سے ایک وفد برطانیہ پہنچ چکا ہے۔ ہندوستانی سفارتخانے نے اس وفد کے لیے انڈیا ہاؤس کے کھلے صحن میں ایک جلسے کا اہتمام کیا، جس میں وفد کے ارکان نے برطانیہ میں مقیم ہندوستانی نژاد شہریوں اور این آر آئی ہندوستانیوں سے خطاب کیا۔ ظاہر ہے کہ سفارتخانے کی عمارت میں صرف وہی افراد داخل ہو سکتے تھے جنہیں دعوت نامہ موصول ہوا تھا یا جنہوں نے پہلے سے رجسٹریشن فارم بھر کر شرکت کی خواہش ظاہر کی تھی۔
آپریشن سندھور کے بعد دنیا بھر میں بھیجے گئے وفود میں سے ایک وفد برطانیہ پہنچ چکا ہے۔ ہندوستانی سفارتخانے نے اس وفد کے لیے انڈیا ہاؤس کے کھلے صحن میں ایک جلسے کا اہتمام کیا، جس میں وفد کے ارکان نے برطانیہ میں مقیم ہندوستانی نژاد شہریوں اور این آر آئی ہندوستانیوں سے خطاب کیا۔ ظاہر ہے کہ سفارتخانے کی عمارت میں صرف وہی افراد داخل ہو سکتے تھے جنہیں دعوت نامہ موصول ہوا تھا یا جنہوں نے پہلے سے رجسٹریشن فارم بھر کر شرکت کی خواہش ظاہر کی تھی۔
جموں و کشمیر سے نامزد رکنِ پارلیمنٹ غلام علی، کانگریس کے سکھ رکنِ پارلیمنٹ امر سنگھ، اور معروف صحافی ایم جے اکبر سمیت نو رکنی وفد کی قیادت بی جے پی کے رکنِ پارلیمنٹ روی شنکر پرساد کر رہے ہیں، جنہوں نے جلسے کی نظامت کے فرائض بھی انجام دیے۔
وفد کے ارکان نے پُرجوش تقاریر کیں اور پاکستانی فوج کے بارے میں وہ سب کچھ کہا جس سے ہم اور آپ بخوبی واقف ہیں، اور جس کی وجہ سے پاکستان کو دنیا بھر میں بدنامی کا سامنا ہے۔ لہٰذا کس نے کیا کہا، یہ بیان کرنا یہاں غیر ضروری ہے یوں بھی یہ تفصیلات آپ ہندوستانی میڈیا میں پڑھ ہی لیں گے۔ البتہ ایک بات قابلِ ذکر ہے، اور وہ ہے ہندوستان میں ایک سکھ اور ایک مسلمان سیاستدان کی جرات کا فرق۔
پاکستانی دہشت گردی اور اس میں فوج کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے روی شنکر پرساد نے پاکستان میں جمہوریت کی پامالی اور سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈالنے کا خاص طور پر ذکر کیا۔ جب امر سنگھ کی باری آئی تو انہوں نے ہنستے ہوئے روی شنکر پرساد کو مخاطب کر کے کہا،’جیل میں ڈالنے کے معاملے میں تو آپ بھی کسی سے کم نہیں۔‘
یہ بات اگرچہ مذاق میں کہی گئی، لیکن اس جرات کا موازنہ ’خائدِ ملت‘ اویسی صاحب کے اُن بیانات سے کیجیے جو وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت اور فرقہ واریت کے تعلق سے خلیجی ممالک میں دئے ہیں۔
بہر حال سکھوں کی جرات کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ آپریشن بلیو اسٹار کے بعد گیانی ذیل کے رد عمل کا ذکر مارکٹیلی نے اپنی کتاب Amritsar: Mrs. Gandhi’s Last Battleمیں تفصیل سے کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی نہ ہوتے ہوئے بھی خشونت سنگھ نے بھی جس طرح پدم بھوشن کا اعزاز واپس کردیا تھا وہ تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اس کے متعلقہ اقتباسات پیش ہیں:
’سب سے زیادہ اہم سکھ شخصیت صدرذیل سنگھ کی تھی۔ انہوں نے مسز گاندھی کو بتا دیا تھا کہ گولڈن ٹمپل پرحملے نے ان کا سکون غارت کردیا تھا اوران کے افسران نے دیگرہندوستانیوں کو بتادیا تھا کہ پہلا سکھ صدرمستعفی ہونے پر غورکر رہا ہے۔ اس سے ایک ایسا آئینی بحران پیدا ہوجاتا جس کی کوئی مثال موجود نہیں۔۔۔ ذیل سنگھ گولڈن ٹیمپل جانے پر بضد رہے جس پر اندرا گاندھی کو بادل نخواستہ اتفاق کرنا پڑا۔ حالانکہ جرنیلوں نے انہیں [مسز گاندھی] کو بتادیا تھا کہ پریکرما ابھی شروع بھی نہیں ہوئی ہے اوروہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ وہاں سے تمام لاشیں اٹھالی گئی ہیں یا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتادیا تھا کہ وہ صدرکی حفاظت کی ضمانت بھی نہیں دے سکتے تھے ۔۔۔ بعد میں ذیل سنگھ نے بتایا کہ گولڈن ٹمپل کی حالت دیکھنے کے بعد وہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ سکے۔۔۔دہلی واپس آکرذیل سنگھ نے نیشنل فلم فیسٹول میں انعامات تقسیم کرنے کے اپنے پروگرام کو منسوخ کردیا ، مگراستعفیٰ دینے کا اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ اس کے بجائے انہوں نے مسزگاندھی سے کہا کہ وہ قوم کے نام اپنی تقریر خود لکھیں گےاور یہ کہ کانگریس اور اپنے پرانے حریف دربار سنگھ کو تنقید کا نشانہ بنا ئیں گے۔ مسز گاندھی کے نزدیک شاید صدر کو ان کے عہدے پر برقراررکھنے کیلئے یہ بہت معمولی سی قیمت تھی‘۔ (Jonathan Cape, London, 1985, p 193-4)
’سب سے زیادہ اہم سکھ شخصیت صدرذیل سنگھ کی تھی۔ انہوں نے مسز گاندھی کو بتا دیا تھا کہ گولڈن ٹمپل پرحملے نے ان کا سکون غارت کردیا تھا اوران کے افسران نے دیگرہندوستانیوں کو بتادیا تھا کہ پہلا سکھ صدرمستعفی ہونے پر غورکر رہا ہے۔ اس سے ایک ایسا آئینی بحران پیدا ہوجاتا جس کی کوئی مثال موجود نہیں۔۔۔ ذیل سنگھ گولڈن ٹیمپل جانے پر بضد رہے جس پر اندرا گاندھی کو بادل نخواستہ اتفاق کرنا پڑا۔ حالانکہ جرنیلوں نے انہیں [مسز گاندھی] کو بتادیا تھا کہ پریکرما ابھی شروع بھی نہیں ہوئی ہے اوروہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ وہاں سے تمام لاشیں اٹھالی گئی ہیں یا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتادیا تھا کہ وہ صدرکی حفاظت کی ضمانت بھی نہیں دے سکتے تھے ۔۔۔ بعد میں ذیل سنگھ نے بتایا کہ گولڈن ٹمپل کی حالت دیکھنے کے بعد وہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ سکے۔۔۔دہلی واپس آکرذیل سنگھ نے نیشنل فلم فیسٹول میں انعامات تقسیم کرنے کے اپنے پروگرام کو منسوخ کردیا ، مگراستعفیٰ دینے کا اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ اس کے بجائے انہوں نے مسزگاندھی سے کہا کہ وہ قوم کے نام اپنی تقریر خود لکھیں گےاور یہ کہ کانگریس اور اپنے پرانے حریف دربار سنگھ کو تنقید کا نشانہ بنا ئیں گے۔ مسز گاندھی کے نزدیک شاید صدر کو ان کے عہدے پر برقراررکھنے کیلئے یہ بہت معمولی سی قیمت تھی‘۔ (Jonathan Cape, London, 1985, p 193-4)

بہر حال عموماً سفارتخانے میں ہونے والی ملاقاتوں میں اتنی بڑی تعداد نہیں ہوتی، اور ان کے بعد سوال و جواب کا وقت بھی رکھا جاتا ہے۔ میں بھی اسی امید کے ساتھ گیا تھا کہ اگر موقع ملا تو یہ سوال ضرور کروں گا کہ اویسی صاحب کے اس بیان کے بعد کہ ان کے اور حکمراں جماعت کے درمیان اختلافات معمولی نوعیت کے ہیں اور نشانت دبے کے اس بیان کے بعد کہ ہندوستان میں اقیلت اور اکثریت کوئی مسئلہ ہی نہیں اور فلسطینیوں کے فلسطینیوں کے حق میں حیرن کن بیان جیسی تبدیلی کا اثر خود ہندوستان میں کیوں نظر نہیں آرہا ہے۔ جہاں آج بھی لنچنگ اور بلڈوزر جسٹس کا سلسلہ بدستور جاری ہے؟
مگر افسوس، وہاں سوال و جواب کے لیے کوئی وقت مختص نہیں کیا گیا تھا۔
جزباتی تقاریر کے دوران ’بھارت ماتا کی جے‘، ’وندے ماترم‘ اور ’جے شری رام‘ جیسے نعرے لگائے گئے۔ یہ نعرے سن کر مجھے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا وہ واقعہ یاد آ گیا جب سابق وائس چانسلر، ڈاکٹر طارق منصور کے دور میں 26 جنوری 2023 کی پریڈ میں این سی سی کے ایک نوجوان کے خلاف صرف اس وجہ سے ہنگامہ برپا کیا گیا تھا کہ اُس نے ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگا دیا تھا۔ بی جے پی کے مقامی رکنِ پارلیمنٹ سمیت تمام ہندوتوا عناصر نے اس معمولی بات کو لے کر شدید ردِ عمل ظاہر کیا تھا اور نعرہ لگانے والے طالب علم کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ وائس چانسلر کو بی جے پی رکنِ پارلیمنٹ کی دھمکی آمیز فون کال کی ویڈیو اس وقت سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی تھی۔ میڈیا کے شدید ردِ عمل کا اندازہ آپ اس خبر کی چند سرخیوں سے لگا سکتے ہیں۔
‘Religious slogans raised outside Aligarh Muslim University during Republic Day event, police order action’ (India Today 27 Jan 2023)
‘AMU suspends student for raising “Allah hu Akbar” slogans on Republic Day, investigation team formed for further probe’ (OpIndia, 23 28 Jan 2023)
AMU: ‘NCC’ students raise Allah-hu-Akbar slogans in response to “Vande Mataram” chants on Republic Day’ (Times Now, 27 Jan 2023)
Aligarh Muslim University suspends student for raising “Allah hu Akbar” slogans on Republic Day, investigation team formed for further probw (OpIndia, 23 28 Jan 2023)
AMU: ‘NCC’ students raise Allah-hu-Akbar slogans in response to ‘Vande Mataram’ chants on Republic Day (Times Now, 27 Jan 2023)