جامعہ ملیہ کی انتظامیہ کو نہ تو ادارے کی تاریخ کا علم ہے اور نہ اس کے نزدیک یہاں کے اقدارکی کوئی اہمیت ہے

محمد غزالی خان

بالاخَرجامعہ ملیہ اسلامیہ کی انتظامیہ نے احتجاجی طلبہ کے خلاف جاری کئے گئے وجہ بتاؤنوٹسز واپس لے لئے ہیں۔ ﷲ کرے یونیورسٹی میں امن قائم رہے اورمزید  کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو۔

بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک ایسے وقت جب مغربی ممالک کی یونیورسٹیوں کے طلبا نے فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کے طور پر بی ڈی ایس کے نام سے تحریک چلائی ہوئی ہے جس کا مقصد اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کو ملنے والی حمایت کو روکنا ہے، جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے مسلم ادارے میں اسرائیلی مندوبین کو سیمینارمیں شرکت کی دعوت دیا جانا، اس کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا کو وجہ بتاؤ نوٹس دیا جانا اوران پر غنڈوں سے حملہ کروانا نہایت شرمناک حرکت ہے۔

طلبا 14 اکتوبر سے ینیورسٹی میں پرامن طریقے سے دھرنا دئے ہوئے تھے اور مطالبہ کر رہے تھے کہ ان کے خلاف جاری کئے گئے نوٹسزکو واپس لیا جائے۔ مگر کل انتظامیہ نے مبینہ طورپرمظاہرین پر غنڈوں سے حملہ کروادیا جس میں کئی طلبا کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ مزید کارروائی کئے جانے کے خوف کی وجہ سے بہت سے زخمی طلبا واقعے کی رپورٹ تک نہیں کر وارہے ہیں۔ انتظامیہ کی اس بےغیرتی پراس ادارے کے بانیان مولانا محمد علی جوہراور حکیم اجمل خان کی روہیں تڑپ اٹھی ہوں گی۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جامعہ انتظامیہ اس ادارے کے قیام اورمقاصد سے بھی نا بلد ہے اور اس کے نزدیک یہاں کی روایات اور اقدار کا بھی کوئی احترام نہیں ہے۔

نجمہ اختر اندریش کمار سے آشیرباد لیتے ہوئے

واضح رہے یونیورسٹی کی موجودہ وائس جانسلر نجمہ اخترادارے کی ذمہ داری سنھالنے سے پہلے ہی ہندوتوا دوست کے طورپر شہرت کما چکی تھیں اورسرکردہ اور بدنام زمانہ آرایس ایس رکن اندریش کمار، جس پرسمجھوتہ ایکسپریس اور اجمیربم دھماکے کروانے کا الزام ہے، سے ملاقات کر کے اس سے آشیرباد لے چکی تھیں۔ بعد میں انہوں نے ایسے بیانات داغے جن سے تعلیمی میدان میں کارپوریٹ لابیز کی حمایت بالکل عیاں تھی۔ موصوفہ آئندہ کون سا رخ اختیارکریں گی وقت ہی بتائے گا۔

بد قسمتی یہ ہے کہ جامعہ اور علیگڑھ کا عملہ اور طلبا کی اکثریت ان اداروں کی تاریخ اور بانیان کے مشن سے بالکل ناواقف ہے اوران اداروں کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی یہ کی گئی ہے کہ طلبا کو اس بارے میں آگاہی دینے کیلئے کوئی کورس یا پروگرام موجود نہیں ہے۔ شاید دوسال پہلے ہی کی بات ہے جب جامعہ میں منعقد ایک پروگرام میں مدعو کئے گئے مہمان خصوصی، کوئی وزیر تھے جن کا مجھے نام یاد نہیں آ رہا ہے، نے مولانا محمد علی کی قبرپر جا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی خواہش ظاہر کی اور میزبانوں سے دریافت کیا کہ مولانا کی قبر کہاں ہے۔ اس پر مجمع پر سکتا طاری ہوگیا کیونکہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ مولانا یوروشلم میں دفن ہیں۔

موجودہ حالات میں جب مسلمان کیا اورغیرمسلمان کیا، ہر ایک پر بی جے پی کی دہشت طاری ہے دہلی اقلیتی کمیشن نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جامعہ انتظامیہ کے خلاف وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا تھا۔ کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا:

’ جامعہ ملیہ کے ایک سیمینار اسرائیلی شخص میں اشتراک کے خلاف طلبہ کے احتجاج کے سلسلہ میں دہلی اقلیتی کمشین نے جامعہ ملیہ کے رجسٹرار کو 15 اکتوربر کو نوٹس بھیجا تھا جس کا جواب ان کو 28 اکتوبر تک دینا تھا۔ لیکن جامعہ میں حالات مزید خراب ہوگئے ہیں اور طلبہ دعویٰ کررہے ہیں کہ حکام نے ان کے احتجاج کو توڑنے کے لیے غنڈوں کا سہارا لیا ہے۔ نئی صورت حال کی وجہ سے دہلی اقلیتی کمیشن نے جامعہ ملیہ کے رجسٹرار کو ایک نیا نوٹس بھیجا ہے جس میں جواب کی تاریخ 25 اکتوبر کردی گئی ہے۔ اپنے پہلے نوٹس میں دہلی اقلیتی کمشین نے کہا تھا : “کیا جامعہ کے حکام کو بی ڈی ایس نامی بین الاقوامی تحریک کے بارے میں نہیں معلوم ہے جس کے تحت مشرق و مغرب کی بہت سی یونیورسٹیاں اسرائیل کا بائیکاٹ کرتی ہیں کیونکہ وہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قابض ہے اور مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھتا ہے”‘

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: