’’مولوی اور طوائف سے کبھی پنگہ نہ لینا‘‘

حضرت مولانا ابو طالب صاحب مدظله العالی اعلیٰ اخلاقی اور شگفتہ گفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے

میں مولانا ابوطالب صاحب کو نہیں جانتا۔  کافی عرصہ پہلے ان کی ایک دو ویڈیو کلپس دیکھی تھیں جن میں موصوف نے مسلمانوں سے اپنے اندر بلند اخلاق، اعلیٰ ظرفی،جزبہ ایثار، خدمت خلق اور بلا تفریق مذہب و ملت تمام انسانوں کے ساتھ حسن سلوک جیسی صفات پیدا کر کے اسلام کی اصلی تصویرپیش کرنے اورلوگوں کے دل جیتنے کی اہمیت پرذوردیا تھا۔ اُن کلپس سے موصوف کے بارے میں ایک اچھا تا ثر قائم ہوتا تھا۔

مگر جوکچھ   یہاں پیش کی گئی دو کلپس میں آپ سنیں گے اُس پر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ موصوف نے مندرجہ بالا عنوان (جو دوران تربیت ایک پاکستانی صحافی اور فیس بک فرینڈ کو دی گئی اُن کے ایڈیٹر کی زریں نصیحت سے ماخوذ ہے جس میں ایڈیٹر صاحب نے نصیحت کی تھی کہ کبھی مولوی اور طوائف سے پنگہ نہ لینا) کی حقیقت کی تصدیق ہی نہیں کی ہے بلکہ خود ایسی ہی دھمکی بھی دی ہے۔

مندرجہ ذیل نوٹ اوریہ دونوں کلپس مجھے  ایک درد مند نوجوان ایکٹوسٹ نے بھیجے ہیں۔ ان کا نام ظاہر کئے بغیران کی تحریر من و عن شائع کی جارہی ہے۔  یہ تحریر بھی پڑھئے، تقریر بھی سنئے اور جمیعت اور پرسنل لا بورڈ کے درمیان نئے اختلافات کو بھی ذہن میں رکھئے اور خود فیصلہ کیجئے کہ یہ نام نہاد ’’علما‘‘ امت کو بد اخلاقی، نفاق اور اختلافات کی کس دلدل میں پھنسانے کی خدمت مستقل انجام دے رہے ہیں  ­— محمد غزالی خان

آج ایک ویڈیو ملی جو AIMPLB کے آفیشل یوٹیوب چینل پر اپلوڈ کی گئی ہے ویڈیو میں بھی ایڈیٹنگ کرکے پرسنل لا بورڈ کے آفیشل لوگو اور علامات کو ایڈ کیاگیاہے جس سے معلوم پڑتاہے کہ تقریر بھی بورڈ کے ہی کسی جلسے کی ہے

اس ویڈیو میں مقرر بورڈ کے رکن ایک مولانا صاحب ہیں جن کا نام ابو طالب رحمانی لکھا ہوا ہے  یہ مولانا بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا ولی رحمانی کے بہت ہی قریبی اور خاص لوگوں میں سے بتائے جاتےہیں۔

 اس تقریر میں یہ مولانا بری طرح بدتمیزی اور اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کررہےہیں ان اسکالرز اور فضلاء مدارس کے خلاف جو مولویوں پر تنقید کرتےہی۔  وہ ناقدین کو انٹرنیشنل باتھ روم میں پاخانہ کرنے والوں سے تعبیر کرتےہیں۔ انہیں کُتا اور کُتوں کے بھونکنے سے بھی تعبیرکررہے ہیں اور اپنے خلاف لکھنے والے اہل قلم کی بے عزتی اور تحقیر کرتے ہوئے ان کو ” لکھاڑیے ” سے تعبیر رہے ہیں۔  موصوف اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کو ” روشن خیال لبرل ” ( یہ مذہبی حلقوں کی ایک خاص اصطلاح ہے جو کسی زمانے میں نام نہاد جدّت پسندوں کے لیے استعمال ہوتی تھی) کہتے ہوے ان کی باتوں کو ” بدبودار سانس ” سے تعبیر کرتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں ۔

غرض یہ مولانا ابو طالب رحمانی اپنے انتہائی مالیخولیائی استحصالی غصیلے اور درشت مزاج تقریر میں علما پر تنقید کرنے والے علماء کو بھی نہیں بخشتے اور یہی سب الفاظ ناقدین علماء کے خلاف بھی استعمال کرتے ہیں۔

انہی مولانا ابو طالب رحمانی کی ہمیں ایک اور ویڈیو بورڈ کے آفیشل چینل پر ملی جس میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا مذاق اڑاتے ہوے وہاں کے ٹیچرز کو بھی روشن خیال کہہ دیا اور ایک واقعہ بتایاکہ میں حیدرآباد گیا تھا وہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ايک پروفیسر نے علما کے خلاف اور اسلام کے کچھ مسائل میں اختلاف کیا تو مجھے سخت غصہ آگیا اور میں نے ان کو ڈانٹا اور کہا کہ یا تو یہ پروفیسر یہاں رہےگا یا تو میں رہونگا اور پھر انہوں نے فخر کرتے ہوئے بتایاکہ اس پروفیسر کو وہاں سے نکلنا پڑا اس کے بعد آگے یہ مولانا خوشی خوشی کہنے لگے کہ مولوی جب کسی کے پیچھے پڑتاہے تو حالت خراب کردیتاہے۔

بہت دیر تک تو ہمیں حیرت ہوتی رہی کہ بھارت کے مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والا فورم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ آخر کس طرح ایسی غیر سنجیدگی غیر شائستگی اور بدتمیزی کو اپنے آفیشل سورسز کے ذریعے Approve کرسکتا ہے۔

ابو طالب رحمانی بار بار اپنی تقریر میں اپنے ناقدین علماء کی تربیت کی کمی کی دہائی دے رہےتھے اور اپنے خلاف تنقید کرنے والے علماء کو مدارس کی غلط تربیت کا نتیجہ بتا رہےتھے لیکن ہم ان کے درشت اور بدتمیزی بھرے انداز کو دیکھ کر یہ سمجھ نہیں پائے کہ تربیت کی زیادہ ضرورت ان کے ناقدین کو ہے یا خود انہیں  پھر ہم نے پرسنل لا بورڈ کے یوٹیوب اور ٹوئٹر اکاؤنٹس کو چیک کیا تو وہاں یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ ہر مسلک یہاں تک کہ شیعہ مسلک کی بھی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے بورڈ کے ان آفیشل ذرائع پر صرف اور صرف ایک خاص مکتب فکر کے ماننے والے مولوی اور ان میں بھی وہی لوگ جو خاص طورپر پرسنل لا بورڈ میں ہیں انہی کی چیزیں یہاں پر زیادہ تر اپلوڈ ہوتی رہتی ہیں۔

ایک نام عمرین رحمانی کا ہے جن کو بہت زیادہ یہاں پر اپلوڈ کیا جاتاہے۔ ان کے بارےمیں جب ہمارے ذرائع نے معلومات حاصل کی تو یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ وہ کوئی خاص قدآور شخص نہیں ہیں بلکہ وہ بھی بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا ولی رحمانی کی ہی لابی کے مولانا ہیں اور مالیگاﺅں شہر کے ہیں جہاں پر پہلے وہ تعویذ اور عملیات کا کام کرتے تھے پھر رکن پارلیمنٹ اسماعیل قاسمی کے اپوزیشن میں ان کو متوازی طورپر کھڑا کرکے یہاں تک پہنچایا گیا ۔

 یہ صورتحال دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ جو بورڈ مسلمانوں کے ہر ہر مسلک کی نمائندگی کا دعویٰ کرتاہے وہاں پر کسی خاص مسلک ہی نہیں بلکہ اس خاص مسلک کے بھی ایک محدود و مخصوص لابی والوں کا قبضہ ہے، اور انہی کے لوگ اس کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں

ہم یہ سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ دیگر مسالک اور مکاتب فکر کے لوگ ایسے بورڈ میں اپنی حریت فکری اور آزادی اظہار رائے کے خلاف وہاں کیا کررہےہیں ۔

اس بارےمیں جب ہم نے بورڈ کے ایک سینئر ممبر سے استفسار کیا تو انہوں نے نمائندے کو بتایاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا عروج اور اس کی شان قاری طیب ۔ مولانا منت اللہ رحمانی اور علی میاں ندوی کے زمانے میں تھا۔ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور نظام الدین کے زمانے سے اسے کمزور اور اس پر قبضے کے لیے لابنگ شروع ہوئی جس سے وہ دونوں حضرات اپنی زندگی بھر نبردآزما رہے اور ان کی وفات کے بعد بورڈ کا متحدہ وجود ختم ہوچکاہے یہاں اب صرف ایک خاص لابی کا طوطی بولتاہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ ۔ ممبران بورڈ کی اس لابی سے خوفزدہ رہتےہیں اس لیے کہ وہ نا صرف اپنے مخالف رائے پیش کرنے والوں کو ڈانٹ دیتےہیں بلکہ ان کی بے عزتی بھی کرتےہیں اور ان کے خلاف اشتعال انگیز مضامین بھی لکھواتے ہیں انہوں نے بتایاکہ کئی ایک ارکان اور خصوصی مدعوئین اہل علم کو گزشتہ چند سالوں میں بورڈ سے باہر نکال دیاگیاہے

ابو طالب رحمانی کی یہ ویڈیو دیکھ کر ہمیں بہت افسوس بھی ہوا اور حیرت بھی ہےکہ جو بورڈ سنگھیوں سے لڑنے کا دم بھرتا ہے وہ خود سنگھیوں جیسا آمرانہ مزاج رکھتاہے اور اپنے ناقدین کو چالاکی سے علماء دشمنی کا لباس پہنا کر عوام کو ان کے خلاف ورغلاتا ہے  ابو طالب رحمانی کی یہ تقریر معصوم مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا ناصرف استحصال ہے بلکہ تنقید کرنے والوں کے خلاف اشتعال انگیزی اور مذہبی بلیک میلنگ کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے ۔

کیا بورڈ کے یہ ذمہ دار اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو تنقید کی حیثیت سے نہیں لے سکتے؟ اور ان کا مدلل معروضی اور سنجیدہ رد نہیں کرسکتےتھے؟ یہ لوگ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو خواہ وہ تعلیمیافتہ مسلمانوں کی طرف سے ہی کیوں نا ہو انہیں اسی نظر سے کیوں دیکھتے ہیں جس نظر سے یہ لوگ بھاجپا اور آر ایس ایس کو دیکھتے ہیں؟ انہیں اپنے اوپر ہونے والی تنقیدوں کے خلاف ” علماء دشمنی ” لبرل روشن خیال،خبردار سازش ہورہی ہے ۔ انہی جیسی بلیک میلنگ کا سہارا کیوں لینا پڑتاہے؟

یہ سب بدتمیزی۔ عدم برداشت اور اشتعال انگیزی کسی عام مولوی کی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرنے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ دار رکن کی زبانی ہیں جسے بورڈ کے آفیشل سے اپلوڈ کیا گیاہے

جو قیادت ایسی غیر سنجیدہ، بدتمیز اور عوام کے خلاف مذہبی جذبات کے استحصال کا ایسا گھناؤنا کام کرتی ہو ان کے مذہب اور مذہب کے ماننے والوں کو سب سے پہلا خطرہ ایسے ہی عناصر سے ہے یہ چودھراہٹ بھرا مزاج کسی بھی قوم کی ترقی کا سبب نہیں بن سکتا جہاں پر مخالف رائے اور تنقید کرنے والے اپنے ہی لوگوں کو اس طرح ٹارگٹ کیا جاتا ہو.

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: