ہندوستانی مسلمانوں میں ذات پات کی حقیقت

محمد غزالی خان/ محمد طارق غازی

ذاتی مفادات کے لئے نئے نئے فتنے پیدا کرنا کچھ لوگوں کا محبوب مشغلہ ہے۔  بدقسمتی یہ ہے کہ کچھ معصوم ان پرفتن لوگوں کی چالوں کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملت اسلامیہ تاریخ کے نازک ترین دورسے گزررہی ہے، چند مفاد پرست، مسلمانوں میں موجود ایک لعنت کو ہوا دے کر اسے ایک بڑے فتنے میں تبدیل کرنے کی مہم میں مصروف ہیں۔ انہوں نے اس فتنے کو اشراف بنام ارذال کی جنگ کا نام دیا ہے۔  یہ فتنہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پرجاری ہے اوراس کے شروع کرنے والے یہ لوگ اپنا تعارف ’پسماندہ مسلمان‘ کے نام سے کراتے ہیں۔

ان کی شرانگیزی کی انتہا یہ ہے کہ ایک صاحبہ نے دی وائر میں پورا ایک مضمون لکھا مارا جس میں موصوفہ نے اپنا نام چھپاتے ہوئے بتایا ہے کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں نام نہاد نچلی ذات والوں کے ساتھ ہر سطح پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ مضمون کا عنوان ہے ‘At Aligarh Muslim University, I Hid My Caste Identity For Five Years’ اس میں لگائے ہوئے الزامات کی حماقتوں کا اندازہ اس ایک مثال سے لگا لیجئے۔ فرماتی ہیں، ’اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کا رنگ صاف ہوتا ہے۔ میرا رنگ صاف نہیں ہے۔ میری کلاس کی سہیلیاں بالواسطہ طورپر اس مسئلے کو باتوں باتوں میں اٹھادیا کرتی تھیں اور کبھی کبھی مجھ سے پوچھتی تھیں: ’کیا تم واقعی صدیقی ہو؟‘

ہندوستانی مسلمانوں میں ذات پات کی لعنت سے شاید  ہی کسی کو انکار ہو ۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چند علاقوں کو چھوڑ کر نام نہاد اشراف اور نام نہاد ارذال کے درمیان شادی بیاہ کا رواج نہ ہونے سے زیادہ کبھی بھی یہ کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں رہا۔ نہ عالم دین بننے کے لئے، نہ مفتی بننے کے لئے اور نہ مسجد کی امامت اورموذن کے لئے کسی خاص ذات  یا برادری سے تعلق  ضروری ہے۔  اس کے باوجود کچھ لوگ مسلمانوں میں ذات پات کا موازنہ ہندوؤں میں ذات پات سے کرنے پر تلے ہیں۔  اس مسئلے سے متعلق سوال کئے جانے پر مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب نے ایک معقول جواب دیا تو اس گروہ نے ایک طوفان برپا کردیا جس کے بعد مفتی صاحب کو ایک اور ویڈیو ریکارڈ کرنا پڑا۔ اس پر مزید طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا۔   ذات پات کیا ہوتی ہے اور اس کی بنیاد پر کس طرح انسانوں کو جانوروں سے بھی بدترسمجھا جاتا ہے اس کے بارے میں ہر ہندوستانی خوب جانتا ہے۔ اور ہندوستان سے باہر بھی اس پر کس طرح عمل ہوتا ہے اس کے بارے میں قارئین اس بلاگ پر ایک رپورٹ’ ذات کی بنیاد پر امتیاز کے خلاف قانون سازی پر برطانوی دلتوں اور ہندوؤں میں زبردست تناؤ‘  ضرور پڑھ لیں۔

بہر حال اس تلخ اور تکلیف دہ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس فتنے کو ہوا دینے کے لئے جس چیز کا سہارا لیا جارہا ہے وہ کفو کے مسئلے کو ذات پات سے تعبیر کرنے کی ماضی کے کچھ نامورعلما کی غلطی ہے، حالانکہ کفو کا مسئلہ شادی کے بندھن میں بندھنے والی دونوں پارٹیوں کی یکساں حیثیت سے زیادہ کچھ اورنہیں ہے۔ تعلیم اور شعورکے فروغ اور اسکی وجہ سے معاشی اور معاشرتی حیثیتیں بدلنے کے سبب  ذات پات کا یہ  مسئلہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ مگرسیاسی اور دیگر مفادات حاصل کرنے کے لئے اسے زندہ رکھنا کچھ لوگوں کی مجبوری ہے۔

ایسے ہی  کچھ  لوگوں نے چند سال پہلے بھی سوشل میڈیا پر یہ شوشہ چھوڑا تھا اور اے ایم یو نیٹ ورک پر اس پر کافی بحث ہوئی تھی۔ اس بحث کے نتیجے میں ان ’پسماندہ‘ مسلمانوں کی ایک لمبی فہرت مرتب ہوگئی تھی جنہوں نے کئی بڑی ملی تنظیموں اور اداروں میں اعلیٰ ترین عہدوں پررہ کر گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان میں سے جماعت اسلامی کے تین امیر مولانا یوسف صاحب مرحوم، مولانا سراج الحسن صاحب مرحوم اور ڈاکٹرعبدالحق انصاری صاحب تھے جن کا تعلق انصاری برادری سے تھا. دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت مسلمانان ہند کی دو مشہور دینی درسگاہوں، دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب اور مولانا سعید الرحمٰن صاحب کا تعلق بھی انصاری برادری سے ہے۔ بہرحال کیونکہ جو بحث اے ایم یو نیٹ ورک پر شروع ہوئی تھی اس میں سینئر صحافی اور مصنف طارق غازی صاحب کا اہم حصہ تھا۔ لہٰذا اس فہرست میں سے چند نام معلوم کرنے کے لئے میں نے طارق غازی صاحب کو ایک ای میل میسیج بھیجا تھا جس کا انہوں نے مندرجہ ذیل جواب تحریر فرمایا ہے۔

چونکہ  ان کی اس مختصر سی تحریر میں کئی اہم نکات آگئے ہیں،  میں نے سوچا کہ اسے دوسرے احباب کے ساتھ بھی شیئر کروں اس لئے اسے من و عن پیش کیا جارہا ہے۔ ہاں ایک ہستی، مولانا محمد علی جوہر کا نام اور ذہن میں آیا جن کے سامنے بڑے بڑےنام نہاد اشراف ہیچ پڑجاتے ہیں اور جن کی تعظیم میں بڑوں بڑوں کے سر جھک جاتے ہیں۔ کب کون ہمت کرپایا  ہےجو ان کی ذات، کلال[i]، کو مسئلہ بنا سکے؟  معلوم نہیں اورکتنی بڑی شخصیات کا تعلق نام نہاد ’پسماندہ‘ ذاتوں سے رہا ہوگا مگر ظاہر ہے کہ نہ کسی کو ان کے نسب کے بارے میں معلوم ہے نہ کسی کو جاننے کی ضرورت پڑی کیونکہ نہ اس مسئلے کا تعلق اسلام سے ہے اور نہ ہی یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے جسے کوئی اہمیت دیتا علاوہ ان کے جو فتنے تلاش کرتے ہیں—غزالی

طارق غازی صاحب کا جواب

غزالی صاحب

سلام و رحمت

اتفاق سے   نہ وہ بحث مجھے یاد  ہے نہ اس میں میری جانب سے افراد کی نشان دہی ۔ 

گر یہ مسئلہ دوبارہ اٹھایا جارہا ہے تو بلاشبہ یہ ایک سیاسی کھیل ہے جس میں ممکن ہے چند افراد کسی نوعیت مادی یا سماجی یا سیاسی فائدہ دیکھتے ہوں۔

پہلی بات تو یہ کہ اگریہ دینی مسئلہ ہوتا تو اسلام کے حجاز سے باہر نکلنے کا جواز ہی باقی نہیں رہتا۔ تاریخ اور سوانح کو غور سے پڑھ لیا جائے تو معلوم ہوجائے  گا کہ عرب مسلمان مرد عورت نے بے شمار غیر عرب مردوں اور غیر عرب عورتوں سے شادیاں کی ہیں۔ ایران کے شیعہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی دی جاتی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اہلیہ شہر بانو ایرانی تھیں۔ تو اور نظایر ہوں نہ ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد بلکہ تیسری ہی نسل میں ایک خالص عرب، قریشی، ہاشمی جوان کی شادی ایک ایرانی خاتون سے ہوجاتی ہے اور آج تک اس پر کسی سنی نے بھی اعتراض کیا، نہ تنقید۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ  بر صغیر جنوبی ایشیا کے مسلم دور میں  کئی  بادشاہوں نے مقامی خواتین سے شادیاں کیں اور ان کی اولاد کو معاشرہ ہی نہیں سیاست میں بھی جملہ حقوق حاصل رہے۔ تفصیل تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ ہندوستان سے باہر بھی سلاطین عثمانیہ نے یونانی، سرب، بلغاری، ارمنی،البانی، مولداوی، ہنگروی، رومانی عورتوں سے شادیاں کیں، خواہ سیاسی حکمت کی وجہ سے یا دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر۔ اور ان شادیوں سے پیدا ہونے والے بچے عثمانی تخت پر بیٹھے اور اس دور کے کسی ترک یا عرب شیخ الاسلام، کسی فقیہ، کسی محدث نے ان اقدامات کی نفی و نکیر نہیں کی۔

اس بنا پرخود کو پسماندہ سمجھنے اور کہنے والے حضرات سے توقع یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے معاشرتی اور خاندانی اور برادری کی تاریخ اور روایات سے ایسی مثالوں کو عام معلومات میں لائیں کہ جہاں اسلام قبول کرنے والی مسلمان برادریوں،  ترکستان، ایران اور عرب نسبت والے مسلمانوں  کے مابین شادیاں ہو ئی  ہوں۔ کو ئی  مسئلہ ہے تو اس کا مثبت حل تلاش کرنا ایک ملی ضرورت ہے، اس پر نوحہ و ماتم کرکے خود کو پسماندہ ثابت کرنا مفید نہیں ہے۔

تیسری بات یہ کہ ہندستان میں ویدک آریہ قانون میں ذاتوں کی تقسیم پیشوں کی بنیاد ہوئی  ہے۔ کوئی تیل کا کاروبار کرتا ہے تو اب اس کا خاندان ہمیشہ کے  لئے  تیلی ہوگیا، ا کوئی کپڑا بنتا ہے تو اس کا خاندان ہمیشہ کے واسطے کپڑا  بننے والا ہوگیا۔ بے شک یہ ہندو معاشرہ کی تقسیم ہے۔ مگریہ سوال بھی تو ہونا چاہئے  کہ کیا ہندستان کی کپڑا ملوں کے کروڑ پتی مالک خاندانوں پر بھی غریب کپڑا بننے والوں کے زمرہ میں ”پسماندہ“ کی تہمت دھری جا ئے ۔

 ایک زمانہ میں باٹا شوز کے مقابل ایک مقامی شوز کمپنی کا نام کرونا شوز کمپنی اور مخفف ( سی ایس سی ) تھا ۔ہم سکول کے جوتے اسی مقامی کمپبی  سے  خریدتے تھے۔ تو کیا اس کمپنی کا مالک بطور جفت ساز ، بطور موچی، معاشرہ میں ذلیل اور کمتر اور پسماندہ تھا؟

 بمبئی  میں ایک زمانہ میں ناولٹی سنیما کے سامنے  ”چندو“حلوائی  کی شاندار دکان تھی۔ لکھپتی شخص اور خاندان تھا۔ تو کیا اسے یا جے بی منگھا رام کو صرف اس  لئے پسماندہ سمجھا جائے  کہ وہ مٹھا ئی بناتا اور بیچتا تھا۔  بمبئی  کے مشہور عالم مٹھا ئی  ساز سلیمان عثمان مٹھا ئی  والے میمن تھے اور ہرگز پسماندہ نہیں تھے۔ میں ذاتی طور پر انہہں جانتا ہوں۔

مرحوم سلیمان سیٹھ  اور ان کے صاحب زادہ عبدالستار سیٹھ نہایت دیندار،اور مخیر عزت مند لوگ تھے۔ تو میرے خیال میں ایسی بڑی صنعتوں کے مالکان کی  ”ذاتوں“ کا جائزہ لے کر اس فسادی تقسیم کو ختم کرنے کی مہم کو مضنوط کرنے کی ضرورت ہے جو مختلف ایسے کام کرتے تھے جن سے منسوب لوگوں کو پسماندہ کہا جاتا ہے اور  پھر  ان دولت مند افراد کو بھی پسماندہ کی فہرست میں درج کردیا جا ئے ۔

چوتھی اور آخری بات یہ کہ ہندو آریہ وید ک معاشرہ میں مختلف پیشوں کی تذ لیل و تحقیر کے بالکل برعکس مسلمانوں میں کسی انسان کا کسی پیشے سے انتساب اس کو ذلیل و کمتر نہیں کرتا تھا بلکہ بڑے بڑے مسلم علما نے اپنے پیشوں سے انتساب کو معیوب نہیں جانا۔مثلا امام غزالی کے خاندان میں دھاگہ بنانے کا کام ہوتا تھا اور علم و حکمت کا وہ جلیل القدر امام اپنی اسی نسبت سے مشہور ہے ان کے اصلی نام سے عام آدمی واقف نہیں۔

میں یہاں چند اور عظیم و جلیل اسلامی بزرگوں کے نام اور پیشے لکھے دیتا ہوں: ۔

امام ابو الحسن ماوردی: ان کا خاندانی پیشہ عرق گلاب تیار کرکے بیچنا تھا {ماء  =  پانی + وررد = گلاب  == ما وردی = گلاب کا پانی بنانے والا۔

شمس الاءمہ عبدالعزیز حلوانی: لقب تھا {{اماموں کے سورج} پیشہ تھا حلوائی  کا اسی لئے  عربی قاعدہ سے حلوانی کہلائے اور نام کے بجایے اسی لقب سے مشہور ہیں’ اصل نام شاید ہی کو ئی  جانتا ہو’ حلوانی کہیں  تو مدرسہ کے کتب خانہ والا فوراان اک کی کتابیں  سامنے رکھ  دے گا۔

امام ابوبکر خصاف : امام وقت ہیں اور نعل ساز یعنی موچی تھے۔ اس لفظ خصاف کا دوسرا مطلب چنگیری یا باسکٹ بننے والا بھی ہوتا ہے۔

امام شمس الدین ذہبی : ذاتی نام کے بجائے امام ذہبی کے عرف سے مشور ہیں۔ محدث اورمورخ تھے۔ پیشہ تھا سنار کا۔ عربی میں سونے کو ذہب کہتے ہیں۔

ابو العباس احمد قصاب : عرف ہی سے ظاہر ہے کہ جانور ذبح کرنے تھےاور گوشت فروخت کرتے تھے۔ شیخ وقت تھے۔

ہندستان یا برصغیر میں یہ نہیں ہوا کیونکہ یہاں معاشرہ کی تنظیم کے ناکارہ اور نکمے لوگ توعزت مند بن کر سروں پر بیٹھ گئے تھے اوربہترین ہنر مند اور رزق حلال کمانے والے محنت کش افراد اور خاندان اور برادریاں جن کی دستکاری اور محنت اور فنکاری پر معاشرہ کا وجود قائم تھا ذلیل و رسوا سمجھے گئے ۔  میں اس کو  ایک نفسیاتی الجھن  کی جڑ  سمجھتا ہوں اور ان سے ہمدردی رکھتا ہوں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی وہ اسی معاشرتی فساد کا شکار رہے اور برادریوں کی عزت کی خاطر انہوں نے خود کو عرب ناموں سے انصاری، سلمانی، قریشی، زبیری، وغیرہ کہنا شروع کردیا۔

 بزرگوں سے نسبت میں کو ئی  عیب نہیں بلکہ بعض معاملات میں تو یہ برکت کا باعث ہے۔ لیکن یہاں وہی غلطی ہو ئی کہ جو لوگ کپڑا بننے کا شریفانہ کام کرتے تھے جب وہ سب  خود کو انصاری لکھنے لگے تو یہ  نئی  نسبت ان کی اسی گزشتہ معاشرتی پہچان کی طرف لوٹ  گئی ۔ تو اس سے فایدہ نہیں ہوا۔ اس طرخ آج بھی ملت اسلامیہ کا یہ عزت مند طبقہ اس جال کو کاٹ کر نہ نکل سکا جس میں انہیں آریہ معاشرہ نے پھنسا دیا تھا۔ یہ صورت دیگر ہنرمند  برادریوں کی بھی ہے۔

ہونا یہ چاہیے کہ ملت اسلامیہ ہند کا یہ سواد اعظم اس سیاسی پسماندگی کے منجھدار سے باہر نکلے۔

اس سلسلہ میں مفتی یاسر ندیم الواجدی کے منسلکہ بیان کا یہ نکتہ اہم ہے کہ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے دینی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر ایک ایک جفت ساز کی بہو نام نہاد ”اشراف“ خاندان کی  آ گئی  توکیا اس جفت ساز خاندان کی پسماندگی دور ہوجائے گی۔ پسماندگی کا احساس ایک نفسیاتی گرہ ہے۔ جنہوں نے اس گرہ کو کاٹ دیا اور علم حاصل کی، وہ  یہ نام نہاد پسماندہ لوگ عرب اور ایرانی اور ترک اور افغانوں کے استاذ اور مربی بن گئے ۔

علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، دار العلوم دیوبند کے ناظم تعلیمات (ڈین فیکلٹی ) تھے۔ حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب کے استاذ اور مربی تھے۔ خاندانی پیشہ کے اعتبار سے (گاڑھے  –  پارچہ بافوں کی ایک  ” معمولی “ برادری) تھے۔

مفتی اعظم ہند مولانا مفتی کفایت اللہ جن کی شہرہ افاق کتاب ”تعلیم الاسلام“جو بنیادی اسلامی علم دیتی ہے، پیشہ کے اعتبار سے بال تراش تھے، مگر دارالعلوم دیوبند میں کیی سید اور صدیقی، اور عثمانی نزرگوں کے استاذ رہے۔

کوئی ان بزرگوں کو پسماندہ کہنےکی جرات تو کرے۔ اور ان بزرگوں سے کوءی اپنی نسبت قایم کرے تو اس سے زیادہ برکت اور علوءے مرتبہ کی بات کیا ہوسکتی ہے۔ 

محمد طارق غازی

وھٹبی۔ اونٹاریو۔ کینڈا

جمعرات ۴ مارچ ۲۰۲۱


[i] مولانا ماجد د ریا بادی، ’محمد علی ذاتی ڈائری کے چند ورق‘، صدق فاؤنڈیشن لکھنؤ

محمد عبدالملک جامعی، مرتب معصوم مرادآبادی، ’مولانا محمد علی جوہر آنکھوں دیکھی باتیں‘، صفحہ 71، خبردار پبلی کیشنز، دہلی

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: