ایسا لگتا ہے کہ آپ لوگوں نے بھنگ کے کنویں کا پانی پیا ہے

محمد غزالی خان

کیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے وزیر اعظم کے نام کوئی مکتوب بھیجا ہے جس میں پارلیمنٹ میں عنقریب منظور کئے جانے والے طلاق ثلاثہ بل سے اُس شق کو ہٹانے کی درخواست کی گئی ہو جس کے مطابق ایک نشست میں تین طلاق دینا قابل دست اندازی پولیس ہو گا؟ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے عوام کو یہی بتایا جا رہا ہے کہ بورڈ نے وزیر اعظم کے نام ایک خط بھجاتھا مگر اس کو جواب نہیں ملا ہے۔

بہر حال مسلم معاملات پر وزیر اعظم کے مشیر خاص ظفر سریش والا کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس شق کے ہٹانے کیلئے وزیر اعظم کو راضی کر لیا تھا اور بورڈ کے ذمہ داران سے اس بارے میں رابطہ کیا تھا۔ ان کے بقول انھوں نے کمال فاروقی صاحب سے کہاکہ وہ وزیر اعظم سے بورڈ کے ارکان کی ملاقات کا وقت لے سکتے ہیں مگر اسکے لئے انہیں بورڈ کی جانب سے تحریری درخواست درکار ہو گی۔

اس پر کمال فاروقی صاحب نے خط بھیجنے کا وعدہ کیا جو سریش والا صاحب کے بقول انہیں کبھی نہیں ملا۔سریش والا کے بقول بورڈ کی جانب سے خط نہ لکھے جانے کی اصل وجہ ولی رحمانی صاحب ہیں۔سریش والا نے یہ انکشاف ایک نہایت قابل اعتماد شخصیت پر کیا ہے۔

ظفر سریش والا صاحب کا اپنا ایک پس منظر ہے اور ان کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کیا جا سکتا۔ بہر حال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بورڈ میں چند شخصیات ہمیشہ سوالا ت اورشبہات میں کیوں گھری رہتی ہیں؟

رحمانی صاحب کی حالیہ دین بچاؤدیش بچاؤ ریلی کے بارے میں جس قسم کے سوالات اور بحث سوشل میڈیا پر ہنوز جاری ہیں وہ کسی سے پویشیدہ نہیں۔ بابری مسجد سے متعلق بھی موصوف کا عجیب و غریب رول رہا ہے۔ 1990۔91 کے دوران اپنی مختصر وزارت عظمیٰ کے دوران چندر شیکھر نے بابری مسجدکے معاملے کو ایودھیا کے مہنتوں اور مسلم قیادت کے درمیان بات چیت کے ذریعے سلجھانے کی کوشش کی تھی

بتایا جاتا ہے کہ اس تصفیے کے عوض انہوں نے دہلی میں آثار قدیمہ کہ قبضے میں سیکڑوں مساجد مسلمانوں کو واپس کرنے کی پیشکش کی تھی۔ مگر آنجہانی راجیو گاندھی کی ایما پرا س کوشش کو ناکام بنانے میں بھی رحمانی صاحب کا اہم کردار رہا۔

اس میٹنگ میں رحمانی صاحب خود تو شریک نہیں ہوئے البتہ اپنے کچھ نمائندوں کو وہاں بھیج دیا جنہوں نے میٹنگ میں سخت کلامی کی جس کے جواب میں چندر شیکھر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آپ لوگوں نے بھنگ کے کنویں کا پانی پیا ہے۔

ایسی ڈیل آپ کو پھر کبھی نہیں ملے گی۔ اردو کے کئی سینئر صحافی ان شخصیات کے بارے میں اشاروں کنایوں میں تو لکھتے رہتے ہیں مگر معلوم نہیں وہ ان مشکوک کرداروں کی حقیقت پوری طرح عوام کے سامنے کیوں نہیں لاتے۔

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: