نام نہاد مجاہدین کی اسلام دوستی کی حقیقت

انجم چودھری اپنے حواریوں کے ساتھ

محمد غزالی خان

شہری ترمیمی بل کے خلاف جاری احتجاج کو جس بردباری، نظم اور حسن و خوبی کے ساتھ خاص طور پر طلبا ء جامعہ نے جاری رکھا ہوا ہے وہ اس کے لئے قابل مبارکباد ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں نظربد سے محفوظ رکھے اور اپنی نیک مہم میں کامیاب کرے۔  ان کے اس مثالی احتجاج کو دیکھ کر کبھی کبھی ڈر سا   حسوس ہونے لگتا ہے کہ سازشی ذہن نا سمجھ اور جوشیلے نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسا کر تحریک کو نقصان نہ پہنچادیں۔ بس اسی ڈر سے ایک   2012    میں  لکھا گیا ایک مضمون ، جو روزنامہ جدید خبر میں شائع ہوا تھا، یہاں دوبارہ شائع کیا جارہا ہے۔

خود ساختہ برطانوی” شیخ”، انجم چودھری نے ایک ویب سائٹ www.shariah4hind.com   لانچ کیا ہے جس میں موصوف نے 3 مارچ  2012 کو دہلی میں ایک ریلی کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ ریلی برصغیر میں مسلمانوں کی سب سے بڑی  مذہبی مہم کا آغاز ہو گی  جس میں سینئر سیاست دانوں منموہن سنگھ،  راہل گاندھی،  نریندر مودی اور ایل کے ایڈوانی، کے خلاف فتو یٰ بھی جاری کیا جائے گا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انجم چودھری کی ذرائع ابلاغ کے اسلام اور مسلم دشمن پروپیگنڈے سے کسی طرح تشفی نہیں ہوتی۔  وہ آئے دن ایسے طریقے اختراع کرتے رہتے ہیں جن سے ان کی اپنی تشہیر ہوتی رہے اور  وہ خبروں میں رہیں، قطع نظر اس کے کہ اسلام اور مسلمانوں کو اس سے کتنا ہی نقصان کیوں نہ پہنچتا ہو۔  برطانیہ اور امریکہ میں اخبارات کی سرخی بننے اور ٹیلی ویژن کے اہم ترین پروگراموں میں انٹرویوز کے ذریعے سستی شہرت حاصل کرلینے کے بعد اب ان کی توجہ ہندوستان کی جانب ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے شر انگیزی کیلئے اس وقت ہندوستان سے بہتر اورکون سا ملک ہو سکتا ہے جہاں معمولی تنازعات یا سڑک پر ہونیوالے معمولی حادثات کو بھی مذہبی منافرت پھیلانے اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کیلئے بہ آسانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کام کیلئے انھوں نے انتخاب بھی بڑے ہی مناسب وقت کا کیا ہے یعنی گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی 2002  کی دسویں سالگرہ کے آس پاس کا وقت۔

آتھ سال کی عالتی رسہ کشی کے بعد 2014 میں امریکہ کے حوالے کئے جانے سے پہلے ابوحمزہ فنسبری پارک مسجد کے باہر اپنے نقاب پوش گارڈ کے ساتھ

دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ سال بھی انھوں نے 3 مارچ کو امریکہ میں وھائٹ ہاؤس کے سامنے اسی قسم کی ریلی کے انعقاد کا اعلان کیا تھا اور ایسا ہی ایک ویب سائٹ بھی لانچ کیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ” اس ریلی میں شریعت کے نفاذ کی مانگ کی جائے گی اور مسلمانوں کو اٹھ کھڑے ہونے اور امریکہ میں اسلامی ریاست کے قیام کی وعوت دی جائے گی۔”

یہ بھی ایک مذاق ہے کہ یہ نام نہاد شیخ نہ تو کوئی عالمِ دین ہے اور نہ کسی تسلیم شدہ نتظیم کا نمائندہ ہے۔  موصوف کا ماضی یہ ہے کہ ساؤتھ ہیمپٹن یونیورسٹی میں میڈیکل کے سال اوّل کے امتحانات میں ناکام ہونے کے بعد انھوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی اور کچھ دن بحیثیت وکیل کام بھی کیا۔ ساؤتھ ہیمپٹن یونیورسٹی میں طالب علمی کے دوران اُن میں وہ تمام خصائص بدرجہ اُتم پائے جاتے تھے جو عام طور پر لا مذہب اور سفیدفام طلبا اور طالبات میں پائے جاتے ہیں یعنی شراب نوشی، ناجائز جنسی تعلقات وغیرہ۔  وکالت کے دوران ان کی ملاقات شامی نژاد خود ساختہ” شیخ”  عمر محمد بکری سے ہو گئی جس کے بعد وہ عمر بکری کی شاگردی میں آگئے۔ اسلام فار ہند ویب سیائٹ کے مطابق عمر بکری بھی دہلی میں منعقد ہونے والی ریلی سے خطاب کریں گے۔

عمر بکری کے خود اپنے بارے میں کسی کو اس کے علاوہ کچھ نہیں معلوم کہ وہ شام میں پیدا ہوئے تھے، غالباً ان کا اخوان المسلمون سے بھی کچھ تعلق رہا ہے۔ 1982  میں ملک بدری کے بعد وہ لبنان میں منتقل ہو گئے اور حزب التحریر نامی نتظیم قائم کی جو اخوان کے ایک باغی گروہ نے 1953  میں یروشلم (اسرائیل)میں قائم کی تھی۔ 1983  میں عمر بکری سعودی عرب منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے المہاجرون کے نام سے ایک دوسری تنظیم قائم کی۔ 1985  میں سعودی عرب سے نکالے جانے کے بعد انھوں نے لندن میں سیاسی پناہ اختیار کی۔

عمر بکری اور ابو حمزہ

لندن میں انھوں نے حزب التحریر کی بنیاد ڈالی جو خاص طور پر یہاں کی یونیورسٹیوں میں سرگر م ہو گئی اور اس کا ہدف ذہین اور ہونہار طلبا ہوتے تھے۔  نوجوان کچے ذہنوں کو ورغلا کر اور مشرق وسطیٰ میں مغرب کی دوہری پالیسیوں کے خلاف ان کے فطری غصے کو استعمال کرکے انہیں تنظیم میں بھرتی کیا جاتا تھا۔  1991 میں حزب التحریر چھوڑ کر عمر بکری نے المہاجرون کی بنیاد ڈالی۔  برطانیہ میں اپنے 20  سالہ قیام کے دوران عمر بکری نے بھر پور اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے اپنے آپ کو بین الاقوامی اسلامی فرنٹ کا نمائندہ متعین کرتے ہوئے طالبان کی جانب سے بیانات جاری کرنے شروع کردئیے جواپنی اشتعال انگیزی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہوتا تھا۔ بکری نے صرف بیانات پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ برطانیہ سے افغانستان، اسرائیل اور دیگر ممالک میں رضاکار بھیجنے کا دعویٰ بھی کر ڈالا۔

1991 میں بکری نے اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم جان میجر کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دی تھی جس کے بعد انہیں محض  20 گھنٹے کی پولیس حراست کے بعد رہا کردیا گیا۔  1999 میں انھوں نے روسی رہنما بورس یلٹسن کے خلاف فتویٰ جاری کیا اور مسلمانوں سے روسی سفارتخانے پر حملہ کرنے کی اپیل کی۔  18 ستمبر 2001 کو بکری نے لندن میں پاکستانی سفارتخانے کے سامنے جنرل مشرف کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا۔  اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ 1999 میں مشرف کے بر سر اقتدار آنے کے بعد بکری نے اپنے مریدوں کو بتایا تھا کہ انھوں نے جنرل مشرف سے فون پر بات کی ہے اورمشرف نے انہیں پاکستان جا کر شرعی نظام کے نفاذ کیلئے کام کرنے کی دعوت دی تھی۔

اس نام نہاد شیخ نے اسپین کے شہر میڈرڈ میں 2004 میں ہونے والے بم دھماکوں کی یہ کہہ کر تائید کی کہ ” میڈرڈ میں جو ہوا ہے وہ صرف اور صرف انتقام ہے۔ آنکھ کے بدلے آنکھ،  ناک کے بدلے ناک، جو کوئی بھی جرم کا ارتکاب کرے اسے سزا ملنی ہی چاہئے۔ اسپین میں یہی تو ہوا ہے۔”

انجم چودھری عمر بکری کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے۔ انجم چودھری کو خود 2016 میں داعش کی حمایت اور دوسروں کو اس میں شامل ہونے کی ترغیب کے جرم میں پانچ سال کی سزا ہوئی اور 2018 میں رہا کردیا گیا مگر ان کی سرگرمیوں پر سخت نظر رکھی جارہی ہے

مسلمان نو جوانوں کو ” مارو اور مرجاؤ ” کی ترغیب دیتے ہوئے بکری نے کہا  ” لوگ اسے خودکش بمباری کہتے ہیں… ہم اسے خود کی قربانی کہتے ہیں ”  اس کے بعد بکری نے فتویٰ جاری کیا کہ ” اگر مثال کے طور پر کوئی 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پر جہاز اتارنے کا فیصلہ کرے تو وہ جنت میں جائے گا”

بکری کے فتوے کے مطابق مسلمانوں کیلئے برطانوی سیاست میں حصہ لینا یا یہاں ووٹ دینا حرام ہے۔ جس وقت لندن میں عراق پر برطانوی اور امریکی حملے کے خلاف احتجاج ہو رہے تھے،  بکری نے مسلمانوں سے ان جلوسوں میں شرکت نہ کرنے کی اپیل کی تھی کیونکہ بقول ان کے ان احتجاجی جلوسوں کا مقصد عراق کو نہتا کرنا تھا نہ کہ عراق پر حملے کی مخالفت کرنا۔

بہرحال 7 جولائی 2005 کو لندن دھماکوں کے بعد جب مشتبہ لوگوں کو گرفتار کرنے اور سوال جواب کرنے کا سلسلہ جاری تھا تو عمر بکری خاموشی سے لبنان کیلئے روانہ ہو گئے جبکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انھیں ایسے کرنے دیا گیا۔ لبنان جا کو انھوں نے بیان بازی کا سلسلہ جاری کردیا۔  تاہم 2006  میں اسرائیلی – حزب اللہ جنگ کے دوران عمر بکری کی بہادری کا پول اس وقت مزید کھل کر سامنے آگیا جب  انھوں نے برطانوی وزارت داخلہ سے انسانی بنیادوں پر انہیں واپس آنے کی اجازت دئے جانے کی درخواست کی۔  دہشت زدہ عمر بکری نے اس برطانوی جہاز پر سوارہونے کی ناکام کوشش بھی کی جو لبنان میں پھنسے ہوئے برطانوی شہریوں کو لینے کیلئے گیا تھا۔  ریڈ یو 4 کو دئیے گئے ایک انٹر ویو میں انھوں نے کہا  ” میں برطانیہ میں قیام کے حق کے خلاف اپیل نہیں کر رہا ہوں۔  میری درخواست میری چھوٹے چھوٹے بچوں کی جانب سے ہے جو میرے بارے میں فکر مند ہیں اور اپنے باپ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لبنان جیسے ملک میں بھیجنا چاہتے ہیں “…..

ان نام نہاد جہادیوں کیلئے دوسروں کے بچوں کو بلی چڑھانا کتنا آسان کام ہے۔ برطانیہ میں اپنے 20 سالہ قیام کے دوران عمر بکری نے نوجوانوں کو ورغلانے، ان کے عمدہ کیریئر تباہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسر ا کام نہیں کیا۔ ان کا اور ان کے چیلے انجم چودھری کا ذریعہ معاش بے روزگاری کی بنیاد پر ملنے والے وظیفے اور رعایات کے علاوہ کچھ نہیں رہا۔ کسی بھی برطانوی شہری کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ان لوگوں کا  مراعات لیتے رہنا اورجو کچھ ان کے منہ میں آئے وہ بکتے رہنے کی بے لگام آزادی دئیے جانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔

جہاں ایک طرف ” شیخ”  عمر بکری لبنان میں بیٹھ کر زہر افشانی کرتے رہتے ہیں تو برطانیہ میں ان کے شاگرد انجم چودھری اپنے استاد کی ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔ گزشتہ سال شہزدادہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن کی شادی کے روز 20   اپریل کو انھوں نے مسلمانوں کو ویسٹ منسٹر ایبے سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ اُن کے مطابق اس جگہ پر دہشت گردانہ حملہ ہو نے کا قوی امکان تھا۔  انجم چودھری کے دوسرے شاگردوں اور ان کی تنظیموں کی دیگر شاخوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً کی جانے والی اشتعال انگیزی میں افعانستان میں مارے جانے والے فوجیوں کے جنازوں پر مظاہرے کرنا،  ریمیمبرنس ڈے)  جو 11 نومبر کو جنگ عظیم اور اب افغانستان اور عراق میں مرنے والے فوجیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے) پر پوپیز کو آگ لگانا اور چندسیکنڈکی روایتی خاموشی کے دوران نعرے لگا کر خلل ڈالنا شامل ہے۔

انجم چودھری کی زندگی کی ایک جھلک

تنظیموں پر پابندیاں اِن لوگوں کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہیں کیونکہ ایک تنظیم پر پابندی لگتی ہے تو یہ کسی دوسرے نام سے نئی نتظیم کا اعلان کر دیتے ہیں۔  پابندی سے متعلق سوال کے جواب میں ایک انٹر ویو میں انجم چودھری نے برطانوی صحافی اینڈریو نیئل سے کہا، ” بحیثیت مسلمان میں تبلیغ اسلام سے باز نہیں رہ سکتا”  ذرا غور کیجئے کہ اشتعال انگیزی کو یہ لوگ تبلیغ اسلام کا نام دیتے ہیں۔  ان لوگوں کو اشتعال انگیزی پھیلانے کی اجاز ت کیوں دی جاتی ہے اورذرئع ابلاغ ان کو اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں یہ برطانوی مسلمانوں کیلئے ایک معمّہ ہے۔

اسی گروہ کا ایک اور کردار ” شیخ”  ابو حمزہ المصری ہے جس نے کئی سال تک شمالی لندن کے علاقے فنسبری پارک کی مرکزی مسجد پر کئی سال تک قبضہ کئے رکھا اور مقامی مسلمانوں کیلئے حالات مشکل سے مشکل ترین کر دئیے تھے۔ حکام سے شکایتوں کے باوجود اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ امریکہ کا مطالبہ تھا کہ ابو حمزہ کو اس کے حوالے کیا جائے اور جب یہ دباؤ بڑھا تو 2004  میں اسے یہ کہہ کر گرفتار کیا گیا کہ اس کے خلاف برطانوی قوانین کے مطابق مقدمہ چلایا جائے گا اور سزا دی جائے گی۔  ہوسکتا ہے کہ ابو حمزہ کے پاس بہت سے ایسے راز ہوں جن کا امریکہ تک پہنچنا خلاف مصلحت ہو۔

ابو حمزہ کے کارناموں کی لمبی فہرست میں نوجوانوں کو یہ تعلیم دینا کہ تمام بینک یہودیوں کی ملکیت ہیں لہٰذا ن پر ڈاکے ڈالنا اور کفار کو نقصان پہنچانا بالکل جائز کا م ہے، بھی شامل ہے۔

” شیخ”  ابو حمزہ سول انجیئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کی عرض سے 1979  میں برطانیہ آئے تھے اور 1981  میں انھوں نے ایک انگریز خاتون ویلری فلیمنگ سے شادی کر لی۔ ” شیخ” بننے سے پہلے ابو حمزہ نے شراب خانے میں باؤنسر) نگراں دربان) کے طور پر بھی کام کیا تھا۔  ان کے مطابق ان کے دونوں ہاتھ اور ایک آنکھ جہاد افعانستان کے دوران ضائع ہوئے تھے۔  تاہم جہاد افغانستان کے دوران مجاہدین کے گروہ تھے جن کی قیادت حکمت یار،  ربانی اور احمد شاہ مسعود کرتے تھے اور تمام رضاکاروں کو ان میں سے کسی ایک گروہ کے ساتھ شامل ہونا پڑتا تھا البتہ ان گروہوں میں سے کوئی بھی ابو حمزہ سے واقف نہیں تھا۔

فنسبری پارک کی مسجد میں ابو حمزہ کی آمد کی کہانی بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ہے۔ اس مسجد میں ٹرسٹیوں کے مابین کئی سال سے رسہ کشی جاری تھی جو مسجد پر بلا شرکت غیر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے تھے۔  مخالف گروہ کی جنگجوئی پر قابو پانے اور اپنی چودھراہٹ جمائے رکھنے کیلئے ٹرسٹیوں میں اقتدار کی سب سے بڑی ہوس رکھنے والے ایک شخص نے اردن سے تعلق رکھنے والے ابو قتادہ کا تقرر بحیثیت امام کروادیا۔ ابو قتادہ کا دعوٰ تھا کہ ان کے دنیا بھر کے مجاہدین سے تعلقات ہیں۔ یہی بات انہوں نے برطانوی خفیہ ادارے MI5  کو بھی بتائی تھی اور اسی بنیاد پر لندن ٹائمز (25 مارچ 2004 ) کے مطابق انھوں نے  MI5 کیلئے ڈبل ایجنٹ کے طور پر کام کرنا شروع کردیا۔

کچھ دنوں بعد قتادہ نے ٹرسٹیوں کو یہ جھانسا دے کر کہ ابو حمزہ انگریزی اور عربی دونوں بول سکتے ہیں امامت ابو حمزہ کے حوالے کردی۔  ابو حمزہ نے نہ صرف مخالف گروہ کو باہر کا رستہ دکھادیا بلکہ اپنے محسنین کو بھی خاموش کردیا اور مسجد پر بلا شرکت غیر قبضہ جمالیا۔ ان کے قبضے اور امامت کے دوران فنسبری پارک مسجد ایک بدنام جگہ بن کر رہ گئی۔  جس کسی نے مخالفت کی جراء ت کی اسے مارا اور دھمکایا گیا۔ ان میں سے ایک عالم دین مولانا شفیع اللہ پٹیل ہیں جنہیں مسجد میں داخل ہو کر اس وقت شدید زخمی کیا گیا جب وہ شام کے وقت چھوٹے بچوں کو قرآن اور اسلامیات پڑھا رہے تھے۔ ان بچوں میں سے کئی کی عمر پانچ سال تھی اور جنہوں نے نقاب پوش حملہ آور کو اس کے کپڑوں کی وجہ سے پہچان لیا کیونکہ وہ اسے روزانہ مسجد میں دیکھتے تھے۔

فنسبری پارک مسجدمیں ابو حمزہ نے  “Supporters for Sharia”  (حامیان شریعت) نام کی ایک تنظیم قائم کی۔ یہاں پر انہوں نے مسلمان نوجوانوں کیلئے تربیتی کیمپ قائم کئے جو ان کے اپنے ہی لیفلیٹ کے مطابق جنگی تربیت تھی،  ابو حمزہ نے 9/11  کو امریکہ کے ٹریڈ ٹاور پر ہونے والے حملوں پر۔ مسجد میں ہی جشن منایا۔

جنوری 2003 میں اسکاٹ لینڈ یارڈ نے مسجد پر دھاوابولا اور سات افراد کو گرفتار کرلیا جن میں ابو حمزہ شامل تھا۔  پولیس کی رپورٹ کے مطابق مسجد میں ہتھیار پائے گئے تھے۔  پُر اسرا طور پر بعد میں ابو حمزہ کو رہا کردیا گیا۔

پولیس نے عارضی طور پر مسجد اپنی تحویل میں لے لی تھی جس کے دوران مسجد کے ٹرسٹیوں کو اس بات کا اچھا موقع ہاتھ آیا کہ ابو حمزہ کو مسجد سے لا تعلق کردیں اور مسجد کو طویل عرصہ تک دیکھ بھال نہ ہونے کے نتیجے میں خستہ حالی کی بنا کا جواز بناکر غیر معینہ مدّت کے لیے بند کردیں۔ اس دوران کافی دنوں تک مسجد بند رہی لیکن اس کے باوجود ہر جمعہ کو ابو حمزہ بزورِ طاقت مسجد سے باہر سڑک پر نماز جمعہ منعقد کرتا جس کے نتیجے میں سامنے اور اُس سے ملنے والی سڑکیں بند ہوجاتیں اور اس کام کے لیے اُسے پولیس کا پورا تحفظ حاصل رہتا اور اُس کے علاوہ اُس کے نقاب پوش نوجوان ساتھیوں کی ایک جماعت بھر پور طاقت کا مظاہرہ کرتی رہتی تھی۔

جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے ابو حمزہ کی حوالگی سے متتعلق امریکہ کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر ابو حمزہ کو 2004  میں گرفتار کرلیا گیا۔ تاہم ان کیلئے فکر کی کوئی بات نہیں۔ اس طویل خدمت کے بعد لمبا آرارم ان کا حق تھا۔ اس دوران ان کے چیلے اور دوست انجم چودھری وغیرہ ان کی جانب سے خدمات انجام دیتے رہیں گے۔

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: