بچپن کی کچھ یادیں اور ’ضال و مضل‘ کا حالیہ کھیل

محمد غزالی خان

دارالعلوم دیوبند میں ’مودودیت‘ پر مناظرے کے ایک اشتہار کے بعد سوشل میڈیا پر چھڑی بحث نے بچپن کی بہت سی یادیں تازہ کردیں۔

بچپن میں اپنے آبائی وطن دیوبند میں نمازِ عصر کے بعد ’تعلیم‘ میں ضرور بیٹھتا تھا جس میں مولانا ذکریا صاحبؒ کی کتاب ’تبلیغی نصاب‘ پڑھ کر سنائی جاتی تھی۔ کبھی کبھی تبلیغی جماعت کے مقامی گشت میں بھی شامل ہوتا تھا۔ ہائی اسکول تک آتے آتے ’تبلیغی نصاب‘ میں بیان کی گئی حکایات اور روایات سے بیزاری پیدا ہونے لگی ۔ مگر1974 میں علیگڑھ میں پری یونیورسٹی کورس (پی یوسی) میں داخلہ لینے کے بعد وہاں بھی برائے نام ہی سہی مگر تبلیغی جماعت سے تعلق رہا اور دو مرتبہ دو دو دن کے لئے جماعت میں بھی نکلا۔ مگر جو بیزاری دل میں پیدا ہوچکی تھی اس نے شدت اختیار کرلی تھی اورمیں اس سے دور ہوتا چلا گیا۔

اللہ تعالیٰ کی توفیق اور گھر کی تربیت نے بہرحال دین بیزار نہیں ہونے دیا۔ حالانکہ کمیونزم کے بارے میں پڑھا کچھ بھی نہیں تھا مگر دل ہی دل میں مساوات کا اس کا نعرہ بہت پرکشش معلوم ہونے لگا۔ اس وقت اگر عزیز دوست سید عاصم علی، جو پی یو سی سے لے کر بی اے تک میرے کلاس فیلو رہے، نے مولانا مودودیؒ کی کتابیں نہ پڑھوادی ہوتیں تو شاید میں بھی ان خلجان زدہ لوگوں میں شامل  ہوجاتا جو نماز روزے کو ذاتی معاملہ سمجھ کراپنا فرض تو ادا کرتے ہیں مگر بائیں بازو میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس طالب علم کی تو حیثیت ہی کیا، معلوم نہیں مولانا  مودودی کی تحریروں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر میں کتنے لوگوں کی ہدایت کا ذریع بنایا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت میں ان کے شیدائی اور بعد میں سخت ناقد مولانا منظورنعمانیؒ جیسی شخصیت بھی تمام اختالافات اور تنقید کے باوجود دین کا وسیع تصور سمجھانے کے لئے مولانا مودودیؒ کو اپنا محسن تسلیم کرتی رہی اوران کی بلندی درجات کے لئے خاص دع کرتی رہی۔

علیگڑھ کی بات آئی تو قارئین کے تفنن طبع کے لئے ایک واقعہ بھی سناتا چلوں۔ ان دنوں جماعت کا ادارہ تحقیقات اسلامی دودھ پور میں ہوا کرتا تھا، جہاں مولانا سید جلال الدین انصر عمری صاحبؒ کا ہفتہ وار درس قرآن ہواکرتا تھا اور مولانا سلطان اصلاحی صاحب کا بیان بھی ہوا کرتا تھا۔ مولانا کو غصہ بڑی جلدی آتا تھا۔ عاصم ہمیشہ سے  ہونہار طالب علم اور مطالعے کے شوقین  ہونے کے ساتھ ساتھ بہت حاضر جواب اور فقرے بازی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ ایک تقریر میں سلطان صاحب نے دو تین مرتبہ بزرگوں کی معیت کی اہمیت پر زوردیتے ہوئے کہا کہ: ‘ہمیں بزرگوں کی معیت اختیا رکرنا چاہیے، دعا کرنا چاہیے کہ ہمیں بزرگوں کی معیت نصیب ہو۔۔۔‘ عین اس وقت عاصم کی رگ علیگیت پھڑکی اور انھوں نے نہایت معصومانہ اور سنجیدہ منہ بنا کر سوال کیا: ‘مولانا یہ تو عجیب دعا ہوئی کہ بزرگوں کا انتقال ہو جائے اور ہمیں انکی میت نصیب ہو۔ یہ تو بد دعا ہوئی’۔ جو لوگ عاصم کی ان شرارتوں سے واقف  تھے انہوں نے کسی طرح اپنی ہنسی ضبط کی مگر مولانا کا پارہ چڑھ چکا تھا۔ نہایت جھنجھلاہٹ کے عالم میں انھوں نے حلق پر زور ڈالتے ہوئے کہا کہ ‘میں معیت کہ رہا ہوں، معیت، نہ کہ میت۔’۔

ایک مرتبہ گرمی کی چھٹیوں میں، میں عاصم کی دی ہوئی اور کچھ خود خریدی ہوئی مولانا مودودیؒ کی چند کتابیں اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ دادا جان مرحوم نے میرے پاس یہ کتابیں دیکھ کر تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ اپنے مسلک پر قائم رہنا چاہئے۔ بڑے چچاجان مرحوم میں ہر معاملے میں شدت تھی۔ انہوں نے سخت ناگواری کا اظہارکیا۔ (اللہ تعالیٰ دونوں کے درجات بلند فرمائے) والد صاحب (اللہ تعالیٰ انہیں صحت عطا فرمائے اور لمبے عرصے تک ہم بہن بھائیوں کے سروں پر ان کا سایہ قائم رکھے)، نماز روزے کے تو ہمیشہ سے پابند رہے ہیں مگر سوچ کے لحاظ سے بہت آزاد اور مادر علمی کی پرانی روایات کا زندہ نمونہ ہیں۔ ان کا رویہ ٹپیکل علیگیرین اسپورٹس مین والا رہا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں  ان کی غیرنصابی سرگرمیوں میں گھڑ سواری اور کرکٹ شامل تھی۔ انہوں نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ کچھ بھی پڑھو، بلکہ جتنا پڑھو کم ہے، مگر کسی جماعت کی عینک کبھی نہ لگانا۔

علیگڑھ داخلے کے  کے لیے جاتے وقت بھی انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ یونیورسٹی میں داخلہ محض ڈگری لینے کے لئے نہیں لیا جاتا۔ مختلف جگہوں سے آئے ہوئے طالب علموں سے رابطہ اور دوستی رکھنا۔ اس سے ذہن میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دے ڈالی اگر مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہاں جا کر تم گروہ بندی کے شکار ہوئے اور دیوبندی یا سہارنپوری ماحول سے نہ نکلے تو واپس بلا کر لوکل کالج میں داخلہ کروادوں گا۔ میری بدلتی ہوئی سوچ پر وہ مزاقاً مجھے ’بنیاد پرست‘ بھی کہہ ڈالتے تھے۔

وہ مستقل ’ٹائمز آف انڈیا‘، ’اسپورٹس ورلڈ‘ اور ’السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا‘ پڑھا کرتے تھے۔ ’اسپورٹس ورلڈ‘ کے پرانے رسالے بہت سنبھال کر رکھتے تھے۔ ان ہی رسالوں میں، میں نے ’تجلی‘ کے بھی بہت سے شمارے دکھے تھے۔ ممکن ہے دیوبند کے ماحول میں مولانا مودودی سے الرجی نہ ہونے کی یہی وجہ رہی ہو۔ مگر شاید ان پر کسی قدر جماعت مخالف پروپیگنڈے کا اثر تھا۔ اس وقت کے مہتمم اور معروف عالم دین قاری طیب صاحبؒ کے چھوٹے صاحبزادے مولانا اسلم قاسمی صاحب والد صاحب اور مرحوم چچاجان کےدوستوں میں تھے۔ جب وہ ان کے گھر پر ملنے جاتے تو کبھی کبھی قاری صاحبؒ بھی اپنے بیٹے کے دوستوں کی محفل میں تشریف لے آتے تھے۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دن والد صاحب نے دریافت کیا کہ حضرت دیوبند اور مولانا مودودی کے نظریات میں یا عقائد میں کیا فرق ہے۔ اس کا جواب قاری صاحب نے یہ دیا کہ اس کے علاوہ کوئی فرق نہیں کہ مولانا مودودی سمجھتے ہیں کہ صحابہ کرام رض پر تنقید کی جا سکتی ہے اور ہمارا موقف یہ ہے کہ احتراماً ایسا نہیں کرنا چاہئے۔

دیوبند میں، خاص طور پر ستر کی دہائی میں مولانا مودودی کے خلاف پروپگنڈا اتنا سخت تھا کہ کسی دینی شخص کی کردار کشی کے لئے اس پر مودودیا ہونے کا الزام لگا کر بدنام کرنا سب سے مہلک اور موثر ہتھیار تھا۔ ہمارے محلے کی مسجد، مسجدِ قلعہ، میں ایک امام پر یہ ’مودودیہ‘ ہونے کا الزام لگا کر فارغ کیا گیا تھا۔ امام صاحب دارالعلوم دیوبند کے طالب علم تھے۔ ہم تو اس وقت کم عمر تھے بہت سی باتوں کی سمجھ نہیں تھی۔ بس اتنا یاد ہے کہ امام صاحب کی ’مودودیت‘ کے بنیاد ان کا اخبارات پڑھنا، مضامین لکھنا اور مطالعے کا شوق تھا۔ دیوبند کی اکثر مساجد کی طرح اس یہ امام صاحب دارالعلوم دیوبند کے طالب علم تھے۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ مودودیت کے الزام لگائے جانے والوں میں مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب کے والد محترم مولانا ندیم الواجدی صاحب بھی شامل ہیں۔ وہ دارالعلوم دیوبند میں میرے چھوٹے چچا محمد یوسف خان صاحب (ریٹائرڈ پروفیسر شعبہ عربی اے ایم یو) کے ہم جماعت رہ چکے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چچاجان کے ایک دوست جو حفظ قرآن میں ان کے ہم جماعت رہ چکے تھے (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے) نے میری موجودگی میں چچاجان سے حیرت اور افسوس کے ساتھ پوچھا تھا: ’سنا ہے ندیم الواجدی مودودیہ ہوگیا۔‘ اور چچاجان نے اس کی سختی کے ساتھ تردید کی تھی۔ البتہ یہ الزام سن کر مجھے بہت دکھ ہوا تھا کیونکہ میں اپنے والد کے بہت نزدیکی دوست مولانا عبداللہ جاو ید صاحب، مرتب ’مظاہر حق جدید‘ ،کے اخبار ’مرکز جدید‘ میں بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا۔

بدقسمتی یہ ہے کہ نا عاقبت اندیش لوگوں نے علماء کے اس اختلاف کو دیوبندیت بنام مودودیت بنا کر پیش کرنا شروع کردیاہے۔ جبکہ نہ دیوبندیت کوئی فرقہ ہے اور نہ مودودیت۔ نہ بانی دارالعلوم مولانا قاسم نانوتویؒ اوران کے رفقاء نے دیوبندی نام سے کسی فرقے کی بنیاد رکھی تھی اور نہ کبھی مولانا مودودی یا ان کے رفقاء نے جماعت اسلامی کو فرقے کے طور پر پیش کیا۔ بلکہ ایک مرتبہ قاری طیب صاحبؒ کے بڑے فرزند مولانا سالم صاحبؒ لندن تشریف لائے تو ایک میٹنگ میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ دیوبند کوئی فرقہ نہیں۔ بانیان دارالعلوم کو دینی تعلیم کے ایک مرکز کی تعمیر کرنی تھی جو دیوبند میں قائم ہوگیا۔

دوسری جانب جمیعتی ٹولے کا رویہ ہمیشہ مخاصمانہ رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں چھٹیوں میں علیگڑھ سے گھر گیا ہوا تھا۔ ہمارا گھر محلہ قلعہ پر تحصیل کے بہت نزدیک ہے۔ تحصیل کے سامنے ایک چھوٹا سا میدان ہے۔ اس وقت تمام عوامی جلسے اسی میدان میں ہوا کرتے تھے۔ ایک شام جمیعت  علمائے ہند نے ایک جلسہ منعقد کیا۔ اگر مجھے ٹھیک سے یاد ہے تو اسے ’جلسہ سیرت النبی‘ کا نام دیا گیا تھا۔ میں گھرپر اوپروالے کمرے میں لیٹا ہوا تھا جہاں تمام تقاریرصاف سنی جا سکتی تھیں۔ اس جلسے میں خود ساختہ ’فدائے ملت‘ (اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے) نے جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے لئے وہی الفاظ استعمال کئے تھے جو دارالعلوم دیوبند کے مذکورہ مناظرے کے اشتہار میں استعمال ہوئے ہیں اور جماعت اور مولانا مودودی کو گمراہ اور ضال و مضل بتایا تھا۔

حالیہ بحث میں مولانا مودودیؒ کے چاہنے والوں نے بھی حد سے تجاوز کیا ہے۔ میں یہ بات اپنی فیس بک وال پر بھی لکھ چکا ہوں جو یہاں بھی من و عن نقل کررہا ہوں:

مولانا مودودیؒ کو گمراہ ثابت کرنے کے لئے فیس بک پر ان کی تحریروں سے چن چن کر اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مولانا کوئی  معصوم عن الخطاء انسان نہیں تھے جن سے کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ البتہ جو اقتباسات نہایت ناشائستہ تبصروں کے ساتھ پوسٹ کئے جارہے ہیں ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ زبان سخت ہے یا اس انداز میں یہ بات نہ کہی جاتی تو اچھا ہوتا۔ پھر بھی کسی محترم شخصیت پر سخت زبان اور تاریخی واقعات کا حوالہ دینے سے اگر مولانا گمراہ ہو گئے ہیں تو پھر یہی رائے ان ہستیوں کے بارے میں بھی رکھئے جن سے مولانا نے یہ باتیں نقل کی ہیں۔ آج ہی دارالعلوم کی لائبریری میں جائیے اور جن علماء کی کتب سے مولانا نے  یہ باتیں نقل کی ہیں انہیں نذر آتش کردیجئے۔

یہ بھی ذہن میں رہے کہ مولاؒنا کے برعکس دوسرے متعدد جید علماء نے تو بے احتیاطی کے ایسے ثبوت دئے ہیں کہ کوئی اور یہی باتیں لکھ دیتا تو آپ ان پر کھل کر کفر کے فتوے لگا ڈالتے۔ وہاں تو ایسے ایسے خواب تحریر کردیے گئے اور اسے مریدین بے شرمی کے ساتھ بزرگان دین کے مرتبے کے ثبوت کے طورپر بیان کرتے ہیں کہ اگر یہی خواب کسی اور سے متعلق بیان کئے جاتے تو آپ گمراہی اور بے حیائی کے فتوے دے ڈالتے۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کی لغزشوں کو معاف فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔ بہر حال ان کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔

شدت پسندی یک طرفہ نہیں ہے۔ مولانا مودودی علیہ رحمہ کے ایک معتقد نے کسی معترض کے جواب میں لکھا کہ ’اپنے اکابرین‘ کی تحریریں بھی دیکھ لو۔ ارے بھائی مولانا مودودیؒ اور جنہیں آپ ان کے اکابرین بتارہے ہیں ہم سب کے اکابرین ہیں۔ مولانا مودودی بہت بعد کی پیدائش ہیں۔ وہ پیدا ہوتے ہی عالم نہیں بن گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان اکابرین کے کاموں سے استفادہ کیا ہوگا۔ آپ جمیعتی ٹولے کی قابل مذمت حرکتوں کے رد عمل میں کیوں اکابرین کی خدمات کا انکار کرنے پر تل گئے ہیں۔ اگر آپ کا اتنا گہرا مطالعہ ہے تو یقیناً ان سے اختلاف کیجئے مگر یہ نہ بھولیں کہ اس خطے میں دین کی شمع جلائے رکھنے میں ان ہستیوں کا بہت بڑا کردار ہے اور اس لحاظ سے آپ اور ہم پر ان کا بڑا احسان ہے۔ اللہ تعالیٰ ملت کو اندرون فتنوں اور غیروں کی سازشوں سے محفوظ رکھے۔

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: