لات، منات اور عذیٰ کو زندہ کرنے کی تجویز پر سعودی صارفین سخت برہم

رپورٹ : بشکریہ  مڈل ایسٹ مانیٹر

ترجمہ : محمد غزالی خان

سعودی عرب کی مذہبی شناخت کو مزید قومی رنگ دینے کی جاری مہم  کے بیچ   وہاں کے سوشل میڈیا صارفین   کی ایک بڑی تعداد  مطالبہ کر رہی ہے کہ قدیم ویویوں کو مملکت کے ورثے کے طور پر دوبارہ متعارف کروایا جائے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر ایک صارف نے قدیم دیوی  عزیٰ   اور اس کے گرد ادا کی جانے والی رسومات کی تصاویر اور سعودی عجائب گھروں میں رکھے گئے اس کے خاکوں کی تصاویر پوسٹ کیں۔ صارف کے بقول : ’ماضی سے مستقبل تک عزیٰ  کا وجود ہمیشہ رہا ہے۔‘ اس نے مزید لکھا کہ سعودی : ’اپنے ماضی سے ہمیشہ جڑے رہےہیں۔ ‘ اور ’اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس وقت ہم مسلمان ہیں یا نہیں۔‘

بتوں اور دیویوں کے جزیرے کی تاریخ  کا حصہ ہونے کی وجہ سے ، ’سعودی حکومت عربوں کے قدیم  دیویوں کو بہت اہمیت دیتی ہے‘ اور مبینہ طور پر کیونکہ ’ہمارا ماضی ہمارا مستقبل ہے۔‘

اس صارف  نے اسلام سے قبل کی تین دیویوں  —  لات، منات اور عزیٰ—کو  اپنی تاریخ کا جز واور اختیارات نسواں کی علامت کے طور پر بیان کیا ۔ اس نے لکھا: ’زمانہ قدیم سے عربوں نے  صنف نازک کو تقدس سے متصف کیا ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ پر فخر ہونا چاہئے اور نومولود بچیوں کو قتل کئے جانے کے مسخ شدہ اور دقیانوسی تصور سے نجات حاصل کر لینی چاہئے۔‘

صارف نے دعویٰ کیا کہ سعودی  تہذیب میں : ’خواتین کو مثالی مقام حاصل تھا‘ جس میں دیویوں پر ایمان پھل پھول رہا تھا۔ اس صارف اور اس کے ہمنواؤں نے اسلام سے قبل نومولود بچیوں کو زندہ دفن کرنے کا جواز بھی پیش کرڈالا اور لکھا کہ: ’بچیوں کو احساس شرم کی وجہ سے قتل نہیں کیا جاتا تھا، جیسا کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں‘ بلکہ ’یہ  دیویوں کی تثلیث‘  کو بھینٹ چڑھائی جاتی تھیں۔

کچھ صارفین نے  صحوا  پر الزام لگایا کہ اس نے عرب کفار  کی دیویوں اور ان سے متعلق نوادرات سے فائدہ اٹھانے اور سیاحت کے لئے استعمال کرنے کی مخالفت کی تھی ۔ ان میں سے ایک نے لکھا کہ اس تحریک کا : ’اثر یہ ہوا کہ یہ چیز تاریخ میں دب کر رہ گئی۔  یہ ہر سعودی (یعنی ہر عرب) کے ذہن سے مٹ گئی۔  اس نے تاریخ، تہذیب، ورثے، آثار  و رروایات قدیمہ اور تشخص کے تصور کو مسخ کر کے رکھ دیا۔ کئی سال پہلے جب کوئی قدیم روایات کے بارے میں با ت کرتا تو اسے کس طرح ان نظروں سے دیکھا جاتا تھا جیسے وہ کسی طرح کے شرک کی بات کررہا ہو یا سعودی عرب میں بت پرستی کو واپس لانا چاہتا ہو۔‘

ایک اور صارف نے انہیں خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا کہ یہ رجحان: ’ براہ راست اخوان المسلمون اورتعلیم اور ذائع ابلاغ  پر  صحوا تحریک کے اثر کا نتیجہ تھا۔۔۔ چالیس سال ،  تک ہمارے اسکولوں پر ان کا قبضہ رہا ، ‘جس میں بہت سے سعودیوں کا مکمل طور پر ذہن بدل دیا گیا’۔

صحوا تحریک  علماء اور مذہبی شخصیات پر مشتمل اسلامی سیاسی شعبہ تھا جس کا کئی دہائیوں تک مملکت  پر  اور اس  کی پالیسیوں پر بہت اثر تھا۔  1960 سے لے کر 1980 اور اس کے بعد تک یہ پھلتی پھولتی رہی اور مبینہ طور پر مصر اور دیگر ممالک   کی حکومتوں سے بچ کر بھاگنے والی  شخصیات  سے متاثر تھی۔  2017 کے بعد سے سعودی ولی عہد شہزادہ بن سلمان نے خود اس تحریک  اور اس کے علما کے خلاف قدم اٹھایا  اور  اینٹر ٹینمینٹ انڈسٹری سمیت سعودی معاشرے میں عائد کردہ بہت سی پابندیوں کو ختم کرتے ہوئے بہت سی اصلاحات متعارف   کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا۔  صحوا تحریک سے متعلق بہت سی شخصیات کو گرفتار کرلیا گیا اور جیلوں میں بھیج دیا گیا جو ملک کے نظام اور اس کے تشخص کی مکمل  تبدیلی کا مظہر تھا۔

ان اصلاحات کا کلیدی حصہ سیاحت  ہے جس  میں  قومی مقامات کی ترقی و تعمیر نو سمیت    قدیم  عربی مشرکانہ علامتوں والے نوادرات کی تلاش  شامل ہے۔

حالانکہ سعودی حکومت اور ولی وعہد شہزادہ بن سلمان کے ہمنوا ؤں  کا اصرار ہے کہ یہ قدم  قومی ورثے کو محفوظ کرنے کا ایک قدم ہے اور یہ کہ سعودیوں کو اپنے ماضی پر فخر ہونا چاہئے، بہت سی مذہبی شخصیات اور صارفین ، جن میں سعودی شہری بھی شامل ہیں،  نے قدیم عرب دیویوں کی تصاویر اور نقاشی پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور انہیں شرک بحال کرنے کی کوشش قرار دیا ہے جس کی اسلام براہ راست مذمت کرتا ہے۔

ایک امریکی مسلم ٹیوبر اور لکھاری دانیال حقیقت جو نے ایکس پر لکھا ہے: ’مسلم ممالک کو  لادین  بنانے [کی تحریک کا] ایک کلیدی حصہ  قوم پرستانہ بیانیہ تخلیق کرنا ہے جس کا محور وہ قدیم اور فراموش کردہ عنصر ہے جس کا تعلق قبل از اسلام کے دور سے ہے۔‘ انہوں نے مزید لکھا ہے: ’اپنے ملک کو  لادین  بنانے کے لئے سعود ی حکام دور کفر کے بتوں کو زندہ کر رہے ہیں جنہیں اسلام نے ختم کردیا تھا۔‘

ایکس کے کچھ صارفین نے  سعودی اکاؤنٹوں کو  بیرون سعودی عرب صیہونی اور ہندوتوا افراد  سے وابستہ کیا ہے جبکہ دوسروں نے ان پر سعودی حکومت کی تائید سے  چلائے جانے والے’بوٹ‘ (کمپیوٹر کے ذریعے چلنے والے خودکار) اکاؤنٹ   ہونے کا الزام لگایا ہے۔  دونوں میں کسی بھی الزام کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

تاہم سعودی حکومت کی مشرکانہ ورثے کو زندہ کرنے کی کوشش ان دیگر اقدامات کا حصہ ہے جن کی  حکومت سعودی عرب مزید قوم پرستانہ اور تاریخی بیانیہ مرتب کرنے کے لئے  ترویج کررہی ہے ، مثلاً سعودی عرب کے یوم تاسیس کی تقریبات جو پہلی مرتبہ 2022 میں شروع  کی گئی تھیں۔ 22 فروری کو سعودی شاہی خاندان   کے  مورث اعلی محمد ابن سعود   کی تخت نشینی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جب وہ 1727 میں درعیہ کے   قصبے کے امیر بنے تھے۔

یوم تاسیس اور ابن سعود سے متعلق تقریبات کا مقصد اٹھارویں صدی کے عالم دین محمد بن عبدالوہاب کے بیانیے کو تبدیل کرنا ہے جن کے اسلام کی تشریح   کی ابن سعود نے تائید کی تھی اور جس کے نتیجے میں کئی صدیوں تک دونوں شخصیات اور ان کی آئندہ نسلوں کے درمیان اتحاد قائم رہا۔ سعودی حکومت کی موجودہ اصلاحات اور قومی بیانیے  کے ناقدین  ان  اقدامات کی یہ کہہ کر مذمت کرتے ہیں کہ سعودی حکومت مذہبی تشخص کو خیرباد کہہ رہی ہے۔

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: