جب ہندوستان کے مسلمان فوجی نے پاکستانی فوج میں اپنے سگے بھائی پر گولی چلائی اور زخمی کرڈالا!

اس کلپ کو 9:20 سے 11:9 تک دیکھیں

محمد غزالی خان

بچپن کا واقعہ ہے ، اپنے آبائی قصبے دیوبند میں ایک افواہ سنی تھی کہ حاجی مستان مرحوم ایک فلم بنانا چاہتے تھے جس کے کچھ مناظر دارالعلوم دیوبند میں فلمانے کی اجازت طلب کی تھی جو منظور نہیں کی گئی تھی۔

فلم کی کہانی کچھ اس طرح بیان کی گئی تھی کہ ایک ہندو ماں اپنے بیٹے کے ہم عمر مسلمان لڑکے کو گود لیتی ہے اور پال پوس کر بڑا کرتی ہے۔ تقسیم کے بعد مسلمان لڑکا پاکستان چلا جاتا ہے جہاں جا کر وہ پاکستانی ایرفورس میں بحیثیت پائلٹ شامل ہوجاتا ہے اور اس کا ہندو بھائی بھی اسی حیثیت سے ہندوستانی ایئر فورس میں جگہ بنانے میں کامیابی پاتا ہے۔

1965کی جنگ میں دونوں بھائیوں کا مقابلہ ہوتا ہے، دونوں کے جہاز تباہ ہوتے ہیں اور دونوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔بتایا گیا تا کہ فلم کا اختتام ماں کا اپنے دونوں بیٹوں کی لاشوں کو گلے سے لگائے ہوئے ہوتا ہے۔

مجھے یہ واقعہ دو دن قبل پوسٹ کئے گئے پاکستانی یو ٹیوبر لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب کے وی بلاگ سے یاد آیا ہے، جس میں وہ صاحب زادہ یعقوب خان کی کہانی بیان کرتے ہیں۔

یعقوب خان کا تعلق رامپور کے نواب خاندان سے تھا۔ غیر منقسم ہندوستان میں انہوں نے اور ان کے بڑے بھائی یونس خان نے برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔ تقسیم کے بعد یعقوب خان پاکستانی فوج میں شامل ہوکر وہاں چلے گئے اور یونس خان نے ہندوستانی فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔

1948 میں دونوں بھائیوں کو بحیثیت میجر اپنے اپنے ملکوں کی فوج کی قیادت کر تے ہوئے ایک دوسرے کا سامنا کرنا پڑا اور یعقوب خان اپنے بھائی کی گولی سے زخمی ہوگئے۔ جب یونس خان کو احساس ہوا کہ زخمی ہونے والا ان کا اپنا بھائی تھا تو انہوں نے چلا کر کہا: ’چھوٹے غم نہ کرنا۔ ہم دونوں سپاہی ہیں اور ہم اپنا اپنا فرض انجام دے رہے تھے۔‘

جب واقعے کی اطلاع کرنل مانک شاء، جو بعد میں جنرل اور ہندوستانی فوج کے سربراہ کے عہدے تک پہنچے، کو ہوئی تو انہوں نے یونس خان کی فرض شناسی کی تعریف کی اور یعقوب خان کے زخمی ہونے پر اظہار افسوس بھی کیا۔

جنرل امجد شعیب کے مطابق دونوں بھائیوں کی ملاقات 36 سال بعد کلکتہ میں ہوئی جہاں وہ ایک دوسرے سے گلے مل کر خوب روئے۔

اس کلپ کو 9:20 سے 11:9 تک دیکھئے اور اس سانحے کا اندازہ کیجئے جس کی قیمت ہندوستانی مسلمان گزشتہ 75 سال سے مسلسل دیتے آرہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کانگریسی قیادت کو معصوم قرار دے کر تقسیم کا تمام تر الزام مسلمانوں کے سر تھونپ دیا گیا ہےاور بی جے پی مسلم منافرت پھیلانے اور اپنی نفرت کے بم چلانے کے لئے  کانگریس کی تعمیر کردہ فصیل کو استعمال کررہی ہے۔

اس کلپ میں جو غیر ارادی ثبوت فراہم ہوگیا ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اپنے ملک کے تئیں کسی بھی ہندوتوا علمبردارسے کم نہیں ہے جسے ہارڈ اور سافٹ ہندوتوا دونوں دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔

عقل کے ان اندھوں کو سمجھ میں نہیں آتا کہ ہندوستانی مسلمان ’اندرونی دشمن‘ نہ 1947 میں تھے اور نہ آج ہیں۔ نفرت کی آگ میں مبتلا ان جنونیوں کو سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک میں زہر پھیلا کر نہ وہ اپنے مذہب کی خدمت کررہے ہیں اور نہ ہی ملک کی۔ کیسے احمق لوگ ہیں جو اپنے پڑوسی کے گھر کو آگ لگا کر خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔

اس واقعے اور اس کلپ میں ایک اور غیر ارادی ثبوت یہ کہ 1947 میں ہندوستانی مسلمان صرف قیادت سے ہی محروم نہیں ہوئے تھے بلکہ انہیں اپنے تعلیم یافتہ  طبقے کی بہت بڑی تعداد  سے بھی محروم ہونا پڑا تھا۔ انہیں اپنے  وجود کو خطرے کی شکل میں جس اذیت کا سامنا ہے وہ تو ہے ہی، مگر سرحد کے دونوں پار اس نسل کے کچھ لوگ اب بھی باقی ہیں جو اپنے عزیزوں سے عمر کے آخری ایام میں ملنے کی حسرت دلوں میں لئے بیٹھے ہیں۔

 رشتوں کی تقسیم کا عالم یہ ہے کہ جو ہندوستانی مسلمان یورپ اور امریکہ میں جا کر آباد ہوگئے ہیں اور پاکستانیوں سے شادی کرلی ہے ان کے بچوں تک کو ویزا لینے اور اپنے دادا دادی یا نانا نانی سے ملاقات کرنے میں غیر ضروری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مرحوم سید شہاب الدین صاحب ہندوستانی مسلمانوں کو ‘casualties of partition (تقسیم کے زخمی) کہا کرتے تھے۔

میجر یونس خان، برگیڈیئر محمد عثمان اور ہوالداد عبدالحمید سے لے کر کارگل کے شہدا تک مسلمانوں کی قربانیاں ان کی حب الوطنی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: