دیکھو انہیں جو دیدہ عبرت نگاہ ہو

محمد غزالی خان

علیگڑھ میں زمانہ طالب علمی کی ایک بات باربار یاد آتی ہے اور وہ یہ کہ جب بھی حالات بگڑتے تھے، علیگڑھ اولد بوائز ایسوسی ایشن اور اے ایم یو ایکشن کمیٹی کے کچھ ارکان فوراً یونیورسٹی میں موجود ہوتے تھے۔ مادرعلمی سے اظہار محبت اور حالات کو بگڑنے سے بچانے کے لئے ملت کے ان ہمدردوں میں ایک صاحب ظفر یاب جیلانی بھی ہوا کرتے تھے۔ نہ میرا ان سے پہلے کوئی رابطہ تھا اور نہ  بعد میں ہوا۔ مگر میں ان کے ملی جزبے سے بہت متاثر تھا۔

۱۹۸۳ میں علیگڑھ سے فراغت کے بعد میں لندن آگیا جہاں سٹی یونیورسٹی سے انٹرنیشنل جرنلزم میں ایم اے کرنے کے بعد اس وقت کے معتبر ترین مسلم جریدے امپیکٹ انٹرنیشنل سے وابستہ ہوگیا۔ وہاں پر ہندوستان اور پاکستان کے متعدد اردو اخبارات اوررسالے آیا کرتے تھے۔ ملی اعتبار سے ملک کے حالات پہلے ہی کب اچھے تھے مگر ۸۰ کی دہائی میں ان میں تیزی سے ابتری آنے لگی تھی۔ ہندوستان سے آنے والے اخبارات میں جن دیگر دیگرملی قائدین کی سرگرمیوں کی خبریں آتی رہتی تھیں ان میں ایک نام ظفر یاب جیلانی کا بھی ہوتا تھا۔

اخلاص پر مبنی بے لوث اور بے غرض جزبے کی میں ہمیشہ سے قدر کرتا ہوں اور جن لوگوں میں یہ خوبی ہو ان سے مجھے عقیدت سی ہوجاتی ہے۔ ظفریاب جیلانی صاحب بھی ان لوگوں میں تھے جن کے بارے میں مجھے یہ خوش گمانی تھی کہ ملت سے ان کی محبت بے لوث اوربے غرض ہے۔

۱۹۹۰ میں جب دہلی سے ہفت روزہ ’اخبار نو‘ کا نیا شمارہ آیا تو اس میں ایک خبر یہ تھی کہ اس کے مدیرم افضل صاحب کو وی پی سنگھ کی جنتا دل نے راجیہ سبھا میں بحیثیت رکن منتخب کرلیا گیا ہے۔ خبرمیں مزید بتایا گیا تھا کہ جب م افضل صاحب کا نام سامنے آیا تو انہوں نے اپنے بجائے ظفریاب جیلانی صاحب کا نام تجویز کیا۔ مگر جب جیلانی صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور م افضل صاحب سے یہاں تک کہا کہہ دیا کہ اگر انہوں نے جیلانی صاحب کا نام تجویز کیا تو تعلقات خراب ہوجائیں گے۔ مجھ جیسے کسی بھی سادہ لوح شخص کے لئے جیلانی صاحب یا ایسی خوبی والے کسی شخص کی محبت میں مزید اضافہ کرنے کے لئے بہت بڑی خبر تھی۔  اس کے کچھ عرصے بعد غالباً سعودی روزنامے ’عرب نیوز‘ میں ان کی ایک پروفائل پڑھنے کو ملی جس میں بتایا گیا تھا کہ بابری مسجد کے مقدمے کے لئے وہ فیض آباد اورایودھیا اپنی موٹرسائیکل پر سفر کرتے ہیں۔

البتہ فرحت احساس صاحب کے مطابق یہ پیشکش پہلے جاوید حبیب صاحب کو کی گئی تھی مگر جن شرائط کے ساتھ یہ پیشکش کی گئی تھی وہ جاوید حبیب کو قابل قابل قبول نہیں تھیں۔ فرحت احساس صاحب لکھتے ہیں:’اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کیلئے انھوں نے بہت سے منصب چھوڑدیئے۔ وزیر اعظم وی پی سنگھ نے انہیں اقلیتی کمشین میں منصب دینا چاہا ۔ انہوں نے اسے لائق اعتنا نہ جانا۔ میں اس بات کا ذاتی گواہ ہوں کہ ایک رات وی پی سنگھ صاحب نے وزیر اعظم کی حیثیت سے انہیں دو تین بار فون کئے کہ آپ اگلے دن راجیہ سبھا کے انتخابات کے لئے کاغذات داخل کردیجئے مگر جاوید حبیب کا اصرار تھا کہ وہ اپنی آزادانہ حیثیت سے ہی راجیہ سبھا میں جا سکتے ہیں کسی کے نمائندے کی حیثیت سے نہیں۔ نمائندگی سے اُن کی مراد امام جامع مسجد کی نمائندگی جیسی سے ہے کہ جناب وی پی سنگھ دونوں کو بہ یک وقت خوش کرنا چاہتے تھے۔ انجام کار اگلے روز م ۔ افضل صاحب نے کاغذات داخل کئے اور راجیہ سبھا کے رکن بنے۔ چار وزیز اعظم تھے یعنی وی پی سنگھ ، چندر شیکھر، نرسمہا راؤ اور اٹل بہاری واجپئی جن سے ان کے براہ راست تعلقات تھے۔ جنہیں وہ براہ راست فون کر سکتے تھے۔۔۔ ‘(جاوید حبیب ہجوم سے تنہائی تک، مرتب معصوم مرادآبادی)

سچائی جو کچھ بھی ہو، اورہو سکتا ہے کہ فرحت احساس صاحب کی فراہم کردہ تفصیلات اور اخبار نو میں بیان کردہ پسمنظر دونو ہی درست ہوں، حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ پڑھ لینے کے بعد میرے دل میں ظفریاب جیلانای صاحب اور م افضل صاحب دونوں کا وقاراور احترام مزید بڑھ گیا گیا تھا۔

طارق قاسمی اور خالد مجاہد پولس حراست میں

وقت گزرتا گیا اورآہستہ آہستہ ملت کے بڑے بڑے ’مخلص‘ قائدین کی مفاد پرستی کی خبریں آنے لگیں۔ ایک ایک کرکے سب نے کسی نہ کسی طرح اپنی حیثیت کے مطابق قیمت وصول کرنا شروع کردی تھی۔ ظفر یاب جیلانی صاحب سے متعلق افواہیں تو گشت کرنے لگیں تھیں مگر ان پر یقین کرنے کو دل نہ چاہا۔ مگرجب یہ خبر آئی کہ مسلمانان اترپردیش پر احسان کرتے ہوئے ملائم سنگھ نے موصوف کو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بنادیا ہے تو  اس خبر نے ہرافواہ پر یقین کرنے پر مجبورکردیا۔ اور پھر یہاں تک ہوا کہ اس انعام واکرام کے لئے اپنے محسن کا قرض ادا کرنے کے لئے جیلانی صاحب پوری طرح حکومت کے وکیل بن گئے۔

22 دسمبر 2007 کو بارہ بنکی اور فیض آباد شہر کی کچہری میں سلسلہ  وار دھماکوں کا جھوٹا الزام لگا کردارالعلوم دیوبند کے دو طالب علموں، طارق قسمی اور خالد مجاہد کو گرفتارکرلیا گیا تھا۔ بعد میں کہ خالد مجاہد کی 2013 میں پولس حراست میں ہی شہادت ہوگئی تھی۔

خالد مجاہد کی پولس حراست میں شہادت ہوئی مگر جیلانی صاحب اپنے محسنوں کے ساتھ وفاداری نبھاتے رہے

2007 میں یوپی میں مایا وتی کی حکومت تھی۔ اس وقت تک مسلمان اتنے بے وقعت اور بے وزن نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے سماجی تنظیموں اور انصاف پر یقین رکھنے والے افراد کے ساتھ مل کر بہت سے احتجاج کئے اور مایاوتی پر دباؤ ڈالا کہ معاملے کی تحقیقت کرائی جائیں جس کے نتیجے میں مایاوتی نے 14 مارچ 2008 کو ڈسٹرکٹ کورٹ کے سابق جج جسٹس آر ڈی نمیش پر مشتمل ایک رکنی جانچ کمیشن تشکیل کے لئے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ جسٹس آر ڈی نمیش کمیشن نے تقریباً  چار سال کی محنت کے بعد اپنی رپورٹ حکومت کے حوالے کردی۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ دونوں نوجوان معصوم ہیں۔ مگر اب اتر پردیش میں سماج وادی کی حکومت بن چکی تھی اور اکھلیش یادو وزیراعلیٰ بن چکے تھے۔  انہں نے رپورٹ کو منظر آپ پر آنے ہی نہیں دیا اور یہ تاثردیا کہ دہشت گردی کے مذکورہ وقعات میں یہ دونوں نوجوان شامل تھے۔ اکھلیش یادویا ان کی جگہ کسی اور سے خیر کی کیا توقع رکھی جا سکتی تھی۔ البتہ ظفریاب جیلانی صاحب  کی نا اہلی یا مفاد پرستی کی تھوڑی بہت کہانی محمد ادیب صاحب کی زبانی اس پرانی کلپ میں سن لیجئے۔

سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب صاحب مولانا طارق قاسمی اور مولانا خالد مجاہدقاسمی شہید کی گرفتاری کے معاملے میں ۲۰۱۳ میں ظفریاب جیلانی کی کارکردگی کی تفصیلات بتارہے ہیں۔

ابھی تک ملت مولوی اسد مدنی اور اس کے بعد ان کے بیٹے محمودمدنی کواس جرم کے لئے معاف نہیں کرپائی ہے کہ جب جب او آئی سی یا کسی مسلم ملک کی جانب سے مسلمانان ہند کے لئے آواز اٹھی ہے تو انہیں یہ بتانے والے کہ یہاں سب خیریت ہے پہلے باپ ہوتا تھا اور اب بیٹا ہوتا ہے۔ اور اب ماشاءاللہ مسلمانان ہند کی دینی معاملات میں رہنمائی کرنے والی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ظفر یاب جیلانی بھی اسی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ کویتی وکیل مجبل الشریکہ جنہوں نے بابری مسجد کا مسئلہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں لیجانے کا اعلان کیا تھا ان کو موصوف نے کیسا جواب دیا ہے وہ آپ اس ٹوئیٹ میں دیکھ سکتے ہیں۔

بابری مسجد کے مسئلے پرایک ٹوئیٹ کرنے کے بعد اسے ہٹایا جانا ان قائدین کی اہلیت یا نیت پر خود ایک مکمل تبصرہ ہے۔

خیر جب مسلمان اس حد تک بے حس ہوجائے کہ اسے شرک اوروحدانیت میں فرق نہ نظرآنا بند ہوجائے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ظفریاب جیلانی کی بابت بابری مسجد کیس میں رقومات کی خرد برد سے لیکر حکومت کی کاسہ لیسی تک جو خبریں آ رہی ہیں اس نے ہم جیسے بہتوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ۔

یہ یقیناً عبرت کا مقام ہے ، ایک شخص جس کی عوامی زندگی کا آغازملت کے لئے اخلاص اور بے لوث جزبے سے شروع ہوا تھا ، وہ اب گراوٹ کی تمام حدوں کو پار کرچکا  ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھے  کہ ایک مرتبہ انسان  ضمیر کا سودا کرنے کے بعد آہستہ آہستہ گراوٹوں کی نچلہ سے نچلی سطح اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: