ہائے علی گڑھ کی وہ پاکیزہ روایات

محمد غزالی خان

یو ٹیوب پر ’علیگڑھ ناسٹلجیا‘میں  محترم اخترالواسع صاحب کا  ایک انٹریو سنتے ہوئے کچھ دیر کے لیے ماضی کی یادوں میں گم ہوگیا۔ واسع صاحب نے اس دلچسپ انٹریو میں اپنے زمانئہِ طالب علمی اور ان کی نشو نما میں علی گڑھ کے کردار کا بہت تفصیل سے ذکرکرتے ہوئے اُس دور کی تاریخ، بالخصوص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کی خاطر چلائی جانے والی تحریک اور اس وقت کے طلباء لیڈروں کی قربانیوں کی تفصیلات بیان کرنے کے علاوہ اُس وقت کے وائس چانسلر علی محمد خسرو مرحوم (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے) کے بارے میں دلچسپ انکشافات بھی کیے ہیں۔ 

واسع صاحب علی گڑھ میں مجھ سے بہت سینئر تھے۔ 1974 میں جس سال میں نے پی یوسی میں داخلہ لیا، اسی سال ان پر اور دیگر طلباء لیڈروں پر لگائی گئی پابندی اٹھائی گئی۔ اسی سال یونین کا الیکشن ہوا جس میں اعظم خان (وہ نصراللہ ہاسٹل میں ہمارے سینئر تھے اور ہم انہیں اعظم بھائی کہا کرتے تھے)، معتمد اعزازی اور چودھری غلام مرسل صدر منتخب ہوئے تھے۔ اخترالواسع صاحب کو میں نے پہلی مرتبہ کینیڈی ہال میں سنا تھا۔ یاد نہیں کون سی تقریب تھی جس میں جاوید حبیب مرحوم نے اعلان کیا تھا کہ واسع صاحب پر لگائی گئی پابندی ہٹالی گئی ہے۔ جس کے بعد واسع صاحب نے بہت ہی مختصر سی تقریر کی تھی۔

خسرو صاحب مرحوم کی جن خوبیوں کا واسع صاحب نے ذکر کیا ہے میں ان سے پوری طرح متفق ہوں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے یونین کے الیکشن کے کچھ ہی دنوں بعد یونیورسٹی میں اقلیتی کردار کی بحالی کے لیے زبردست مظاہرہ کیا گیا تھا جس کے بعد شام میں ہاکی گراؤنڈ میں شاندار جلسہ منعقد ہوا تھا۔ خسرو صاحب کے علاوہ لاء فیکلٹی کے استاد ارشد مسعود صاحب نے بھی اس جلسے میں شرکت اوراقلیتی کردار کے حق میں تقاریر کی تھیں۔ عرفان حبیب صاحب بھی اس میں شریک تھے مگر جب وہ اپنے نکتے پر آئے تو اس وقت کے مخصوص انداز میں ان کی تقریر کے دوران ہلکی ہلکی سیٹیوں کی آوازیں نکال کر نااتفاقی کا اظہار کیا گیا تھا۔ یہ بات میرے علی گڑھ آنے سے پہلے کی ہے جب یونیورسٹی میں تالابندی ہوئی، جس کا ذکر واسع صاحب نے اس انٹرویو میں کیا ہے، جس میں کئی اساتذہ کو اقلیتی کردار کی حمایت کی وجہ سے معطل کیا گیا تھا جن میں ایک نام زولوجی ڈیپارٹمنٹ کے صدر کا یاد آتا ہے۔ ان کا پورا نام تو یاد نہیں وہ شاہ صاحب کے نام سے ہی معروف تھے۔ تصور کیجیے اس وقت کے ماحول کا اور موازنہ کیجیے ان جری اور درد مند اساتذہ کا اور آج کے خوفزدہ اور مفاد پرست عملے کا۔ اور اگر یہ بات درست ہے کہ بشیر بدر مرحوم کی معروف غزل کے یہ اشعار: ’کہاں آنسوؤں کی یہ سوغات ہوگی،  نئے لوگ ہوں گے نئی بات ہوگی‘ اور شہر یار کے یہ اشعار: ’یہ کون سی جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے‘ تالابندی پر لکھے گئے تھے تو اپنے ادارے کے لئے اس وقت کے اساتذہ کی محبت کا اندازہ ان اشعار میں چھپے ہوئے درد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

مجھے وہ منظر بھی اچھی طرح یاد ہے جب شمشاد مارکیٹ میں ایک یونیورسٹی ملازم پر تیز رفتار ٹرک چڑھ جانے اور موقع پر ہی اس کی موت پر مشتعل طلبا نے ٹرک کو آگ لگادی۔ اس وقت جاوید حبیب مرحوم یونین کے صدر تھے۔ وہ منظر اس وقت میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے جب جاوید حبیب اور خسرو صاحب پراکٹر آفس کی گاڑی کی چھت پر چڑھ کر طالب علموں سے ہاسٹل واپس جانے کی درخواست کررہے تھے اور جب تک تمام طلبا وہاں سے نہیں چلے گئے خسرو صاحب نے ضلع انتظامیہ کو پولیس بھیجنے کی اجازت نہیں دی۔ حالانکہ شمشاد مارکیٹ کمپس کا حصہ نہیں ہے۔

میں دادری واقعے کے بعد جب شمشاد مارکیٹ میں طلبا نے پھر اپنے غصے کا اظہار تشدد سے کیا. غالباً یہ 1975 کا واقعہ ہے۔ اس وقت بھی خسرو صاحب نے زبردست ہمت کا مظاہرہ کیا یہاں تک کہ امراجالا اور دوسرے ہندی اخبارات کئی دنوں تک خسرو صاحب کے خلاف زہر اگلتے رہے۔ کئی لوگ اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ علی گڑھ چھوڑنے کے بعد بھی جہاں ممکن ہوا خسرو صاحب نے علی گڑھ کے طلبا کی مدد جاری رکھی۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ اخترالواسع صاحب کا انٹرویو ختم ہوا تو جو خبر سامنے آئی وہ یہ کہ 6 دسمبر کو یوم سیاہ منانے پر طلبائے علی گڑھ کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے مقدمے بنادیے گئے۔

اپنے ملی زوال کو دیکھ کر عجیب سا جھٹکا لگا۔ کہاں وہ دن تھے کہ علی گڑھ ملی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور کہاں آج  پستی کا یہ دور۔ وہ کون سا ملی قائد تھا جسے اس وقت علی گڑھ میں نہ بلایا گیا ہو۔ خاص طور پر جاوید حبیب والی یونین میں تو جن موضوعات پر سیمینار منعقد کئے گئے ان کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اور اگر طلبا یونین ایسی ہمت کربھی لے تو موجودہ انتظامیہ کے دل کی دھڑکن بند ہوجائے گی۔

وہ کون سا فساد تھا جس میں طلبا یونین نے ریلیف کا کام نہ کیا ہو؟ ہندوستان ٹائمز سمیت وہ کون سا اخبار تھا جس نے علیگڑھ کے فساد میں کئے گئے یونین کے راحتی کام کی تعریف نہ کی ہو؟ انٹرویو میں جب واسع صاحب، اپنے دور کے وائس چانسلر علیم صاحب کا ذکرکرہے تھے تو خسرو صاحب کے جرت مندانہ اقدامات اور موجودہ وائس چانسلر صاحب کی خوشامدانہ روش اور ان کی تلک دھاری تصویر  میرے ذہن میں گھوم رہی تھی۔

مگر جس دور کی باتیں واسع صاحب نے کیں اور جنہیں میں یاد کرہا ہوں  یہ وہ دور تھا جب ملت علی گڑھ کو ملی سرمایہ سمجھتی تھی۔ اس کے لئے علی گڑھ، میرٹھ، فروزآباد، مرادآباد، بنارس اور جمشید پور سمیت مختلف شہروں میں غریب مسلمان اپنی جان دینے کے لئے تیار رہتا تھا۔ ایک واقعہ میں کبھی نہیں بھولوں گا۔

طلبا یونین نے دہلی بوٹ کلب پر مظاہرے کا اہتمام کیا تھا۔ دہلی جانے کے لئے یونین نے ہی بسوں کا انتظام کیا تھا۔ البتہ بینر وغیرہ ہر ہاسٹل کے طالب علموں کو خود بنوانے تھے۔ اپنے ہاسٹل کے لئے میں اور میرا ایک کلاس فیلو توحید اعظم، جس کا تعلق بہار کے سہسرام سے تھا، اپنے ہاسٹل کے بینر کے لئے کالا کپڑا خریدنے کے لئے شہر گئے۔ جامع مسجد کے سامنے کپڑوں کی دوکان پر جس وقت ہم بینر خرید رہے تھے تو ایک مسلمان دوکاندار ہم سے کہنے لگا کہ آپ لوگ تو شہر میں فساد کروا کر چلے جاتے ہیں اور بھگتنا ہمیں پڑتا ہے۔ اس کی بات دوسرے دوکاندار نے سن لی۔ وہ غصے سے تلملا اٹھا۔ اور اس دوکاندار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’تم نے کیا بھگتا ہے؟‘ پھر سب کے سامنے بتایا کہ۔ ’پچھلے فساد میں میرا ایک بیٹا پولیس نے شہید کیا تھا۔ مگر کوئی ارمان نہیں اللہ کی امانت تھی اس نے اپنے کام کے لئے قبول کیا۔ بیٹو اپنے مقصد پر قائم رہو۔ انشاءاللہ جو تعاون ہم سے ہوگا ہم جاری رکھیں گے۔‘

یہ اس وقت کی بات تھی جب اس ادارے  کے چاہنے والوں میں ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی اور اس کے اولڈ بوائز میں قاضی محمد عدیل عباسی جیسے لوگ موجود تھے۔ جب مولانا علی میاں، محمد مسلم، امین الحسن رضوی (اولڈ بوائے اور ایڈیٹر ریڈینس) جیسی شخصیات اسے دل کے عزیز رکھتی تھیں اور ہر مشکل وقت میں ملت کے یہ درمند یونیورسٹی میں موجود ہوتے تھے۔ ان کی وجہ سے اس وقت کے طالب علموں میں عارف محمد خان (یہ تاریخی حقیقت ہے ورنہ اب کسی ملی معاملے میں اس شخص کا نام لیتے ہوئے بھی کراہت ہوتی ہے)، اخترالواسع ، اعظم خان اور ایس ایم عارف کی طرح ہمت پیدا ہوجایا کرتے تھی۔ بیچارے موجودہ طالب علموں کو اولڈ بوائز کے نام پر سال میں ایک ڈنر کھانے والے ملے ہیں جو دنیا بھر میں پھیلے ہونے کے باوجود اس بات پر غورکرنے کو تیار نہیں کہ یہ پریشر گروپ کے طور پر بھی کام کر سکتے ہیں۔ اب تو علیگڑھ سے آنے والی ہر خبر دل کو دہلاکر رکھ دیتی ہے۔ یاد نہیں کہ موجودہ طالب علموں کے لئے اعظم خان، ظفرالدین خان، اخترالواسع، ظفریاب جیلانی سمیت کسی ایک نے بھی کبھی آواز بلند کی ہو یا یونیورسٹی انتظامیہ سے انہوں نے یا یونیورسٹی کورٹ نے کبھی باز پرس کی ہو کہ اس ادارے کو تم نے کیا بنا کر رکھ دیا۔ یونیورسٹی کورٹ میں بیٹھے ملت کے یہ ٹھیکیدار پتہ نہیں کس مرض کی دوا ہیں۔

ایک اہم بات جس کی جانب واسع صاحب نے اشارہ کیا ہے وہ این آر ایس سی والوں کے تئیں ہاسٹلرز کا رویہ ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ اب کا تو پتہ نہیں البتہ ہمارے وقت تک علی گڑھ کلچر تھا ہی صرف ہاسٹلز میں اور این آر ایس سی والے اس کلچر سے کسقدر نابلد ہیں اس کا ثبوت موجودہ وائس چانسلر نے ہالز کو مضامین کے اعتبار سے تقسیم کر کے دے دیا ہے۔ یعنی انجینرنگ ، میڈیکل، لاء، آرٹس اور سائنس کے طالب علموں کے الگ الگ ہالز ہاسٹلز دئے گئے ہیں۔ اس پر ہمارے فیس بک دوست محمد وجیہہ الدین صاحب نے اپنی حالیہ کتاب The Making of Modern Indian Muslims: Aligarh Muslim Univesity میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مگر محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اس وقت این آر ایس سی والوں کا یونیورسٹی میں غلبہ ہے جو علی گڑھ کے اس خاص کلچر سے بلکل نابلد ہیں۔جو کچھ کسر علیگڑھ کلچر کی تباہی میں باقی رہ گئی تھی وہ انتظامیہ ہی کی اس تنک ذہنی نےپوری کردی ہوگی۔

ہائے علی گڑھ کی وہ پاکیزہ روایات۔

’اب اُنھیں ڈھُونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر‘

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: