دامن کو ذرا دیکھ ۔۔۔ چوبیس آیات قرآانی کے اخراج کا مطالبہ

پروفیسر سید عاصم علی ( کناڈا)

عزیز دوست سید عاصم علی کا یہ مضمون گو کہ لندن کے ایک جریے میں ان دنوں قسط وار شائع ہو رہا ہے۔ لیکن اس استدلال کی عصری اہمیت کے پیش نظر اسکو یہاں ایک  مکمل مضمون کی صورت میں بیک وقت شائع کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ قارئین کی دلچسپی اور افادے کا باعث ہو گا۔—غزالی

             مثل پرانی سہی پھر بھی ذرا غور فرمائیں اور سر دھنیں کہ ایک صاحب کے دروازے غلاظت کا ابنار لگا ہو اور وہ حفظان صحت کے اصولوں کی جانب آپکی توجہ مبذول کرائیں اور فرمائیں کہ ”حضرت! صاف ستھرے رہا کیجئے، آپکی لاپرواہی سے پورا شہر بیمار ہوا جاتا ہے۔“ کچھ ایسا ہی معاملہ ان لوگوں کا ہے جو بعض انتہاپسند تنظیموں کے پلیٹ فارم سے قرآن مجید کی چوبیس آیات کے اخراج  کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ (اس معاملےنے لکھنؤ کے ایک مشکوک کردار کوابھی حال میں اتنا  بے چین  کیا کہ اس نے اپنا شیعہ مذہب چھوڑ کر ہندو دھرم اپنا لیا۔ بتوں کی پوجا شروع کر دی۔ اور باستثناء حضرت علی تمام مقدس ہستیوں بشمول رسالتمآب ﷺ  کے لیے دشنام گوئی پر  اتر آیا۔ اور اسطرح قرآن اور ہندو کتب مقدسہ دونوں سے ناواقفیتِ محض کا زندہ ثبوت بن گیا۔ اسکوبرہمنی لٹریچر سے ذرا بھی واقفیت ہوتی تو خواہ ملحد ہو جاتا، ہندو نہ بنتا)۔ لیکن یہ کوئی نیا شوشہ نہیں ہے۔ اب سے تقریباً دو عشرے پہلے وشو ہندو پریشد زور و شور سے یہی راگ الاپ چکی ہے اور اس سے دو عشرے پہلے  سنگھی رسالہ”پنچ جنیہ” یہی مسئلہ چھیڑ چکا ہے۔ بلکہ اس سے بھی بہت پہلے انیسویں صدی کی آخری چوتھائی میں آریہ سماج کے بانی  مول شنکرگجراتی  (عرف سوامی دیانند سرسوتی) نے اس مسئلے کو اپنی تصنیف “ستیارتھ پرکاش” (۱۸۷۵ء) میں پوری شدومد سے اٹھا یا کیا بلکہ ایجاد کیا تھا۔ اس نے بعض آیات پر فرداً فرداًسطحی قسم کے اعتراض وارد کرتے ہوئے یہ نتیجہ برآمد کرنیکی کوشش کی تھی کہ جو آیات اس قسم کے فتنہ و فساد کی تعلیم دیتی ہوں وہ منجانب اللہ نہیں ہو سکتیں، ورنہ بصورت دیگر ان آیات کا نازل کرنے والا خدا  (نعوذ باللہ) سخت ظالم، جانبدار اور بے رحم قرار پاتا ہے۔ اب ہمارے زمانے کا “پنچ جنیہ” ہو یا شیعہ سے ہندو ہوجانے والے قسم کے سطحی افراد۔ ان کی معلومات کا واحد مأخذ سوامی دیانند کی وہی تحریریں ہیں جنکو یہ فِتّین وقتاًفوقتاً مسلمانوں کو چِڑانے اور مشتعل کرنے کیلئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ورنہ کسی کو یہ وہم نہیں کہ ان لوگوں نے کبھی قرآن پڑھنے یا سمجھنے کی واقعی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہو گی۔ اِن لوگوں کے خیال شریف میں قرآن کی یہ ’چوبیس آیات حسد، عداوت، تصادم، لوٹ مار اور قتل وغیرہ کے احکام پر مبنی ہیں اور یہی آیات مسلمانوں کے درمیان اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان نہ صرف ہندوستان  بلکہ پوری دنیا میں فسادات  اور کشت و خون کی ذمہ دار ہیں۔ جب تک ان آیات کو قرآن سے خارج نہیں کیا جاتا فتنہ وفساد کا سلسلہ تھم نہیں سکتا۔اس طرزفکر میں صاف طور پرتین مفروضات دیکھے جا سکتے ہیں،: یعنی یہ کہ (۱)   ان آیات کے  نزول سے پہلے یہ دنیا اور خصو صاً آریہ ورت (یعنی آریوں کی سرزمین جسکو مسلمانوں  نے ہندوستان کا نام دیا) امن وامان کا گہوارہ تھے، (۲) ان آیات کے نزول کے بعد دنیا اور آریہ ورت جنگ و جدال سے بھر گئے کہ ان آیات میں کافروں کو مارنے کا حکم دیا گیا تھا، اور(۳) اگر ان آیات کو قرآن سے نکال دیا جائے تو دنیا اورآریہ ورت پھر سے امن کا گہوارہ بن جائیں گے (گویا مسلمانوں کے کافروں کو مارنے کے علاوہ ھِنسا یعنی تشدد کی کوئی اور شکل اس دنیا میں نہیں پائی جاتی)۔  ضمناً عرض کردوں کہ برہمن دھرم (جسکو مسلمانوں نے ‘ہندو دھرم’ کا نام  دیا) کے مطابق شمالی ہند کے تین حصے ہیں۔ مغربی حصہ جو اب پاکستان کہلاتا ہے انکا “دیو ورت” یا “برہما ورت” ہے یعنی “ارض خداوندی”  جس پر انکا دعوئ ملکیت چلا آتا ہے۔ دریائے سندھ سے تقریباً بنارس تک کا  درمیانی علاقہ انکا “رشی ورت” ہے یعنی “ارض اولیاء”۔ پھر خلیج بنگال سے لے کر بحر عرب تک  اور جنوب میں وندھیاچل تک مجموعی طور پر ہے “آریہ ورت” یعنی آریہ قوم کا وطن۔ اب ان علاقوں کو چھوڑ کرباقی پوری دنیا ہے “ملیچھ دیشو” یعنی ناپاک، بدمعاش  یا رذیل لوگوں کا مسکن۔ (دیکھو منو سمرتی،  پہلا ادھیائے،  ۱۷۔۲۳)

            افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے جس قسم کے جواب سو سوا سو سال پیشتر دیئے گئے تھے وہی اب بھی دہرادیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک سکہ بند جواب انکی طرف سے یہ سامنے آتاہے کہ ان آیات سے پہلے ان کا شانِ نزول دیکھو، جو یہ ہے کہ مکہ والوں نے آنحضو ر ﷺ کو ستا مارا تھا تِس پر اس قسم کے وقتی احکام دیئے گئے۔ لیکن اس طرح کے جوابات سے نہ صرف یہ کہ بات نہیں بیٹھتی بلکہ کچھ نئے سوالات اوراُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مثلاً یہی کہ کیا قرآن پاک کی بعض آیات کی نوعیت عارضی تھی اور وہ اپنا فوری مقصد پورا کر چکنے کے بعدعملاً منسوخ ہو چکی ہیں اور کیا وہ قیامت تک کیلئے قابل عمل یعنی   applicableنہیں ہیں؟ اگر ہاں، تو یہ جواب بنیادی اسلامی عقیدے سے ٹکراتا ہے،جو یہ ہے کہ پورا قرآن قیامت تک کیلئے مأخذ ہدایت ہے، اس میں کچھ قابل تنسیخ نہیں۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم عوام میں اب بھی اُسی قسم کے رد عمل دیکھنے میں آتے ہیں جو سو سال پیشتر دیکھے جاسکتے تھے، مثلاً جلسہ جلوس، غصے کا بے پناہ اظہار، خود اپنی املاک کی تباہی، جذباتی بیانات اور گرفتاری کا مطالبہ وغیرہ۔ اور پھر اسکے بعد اگلی چھیڑ خانی تک ایک مہیب سناٹا۔ ثابت یہ ہوتا ہے کہ باوجود سر سیدؒ اور علیگڑھ تحریک کے ہماری قوم کے دانشورانہ اور سماجی شعور میں ان سوا سو  سالوں میں برائے نام ہی ترقی ہو پائی۔ پھر ہونا کیا چاہیے؟ میری ناقص رائے میں دو باتیں محل نظر ہیں: (۱) عوامی سطح پر ہر قسم کے اعلانات، جلسے جلوس، گرفتاری کے مطالبات وغیرہ سے مکمل اجتناب کہ یہ آپکا روایتی متوقع ردعمل ہے جس سے چھیڑ خانی کرنے والا لطف لیتا ہے اور اگر آپ مشتعل ہو کر سڑکوں پراتر آئیں تو آپکا قتل عام کرتا ہے۔ بالفرض، اسطرح کا ردعمل نتیجہ خیز ہواکرتا تو چھیڑ خانیوں کا سلسلہ کب کا تھم چکا ہوتا، اور (۲)    روایتی تشریح سے ہٹ کر ایسی تشریح جو معقول، مُسِکت اور قائل کن ہو، اسلئے کہ آپکی روایتی تشریح میں اگرجان ہوتی تو اسطرح کے اعتراضات کب کے ہواہو گئے ہوتے۔ اور یہ تشریح شان نزول کی روشنی میں نہیں بلکہ حالات حاضرہ کی روشنی میں ہو۔ شان نزول غیر مستند، غیر محفوظ اور اختلافی ہے جبکہ قرآن محفوظ، مستند اورغیراختلافی۔چنانچہ غیر مستند کی روشنی میں مستند کے معنی کیونکر متعین ہو سکتے ہیں؟ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ چراغ کی روشنی میں سورج کی تلاش۔ البتہ قرآن کی روشنی میں شان نزول کی حیثیت ضرور متعین کی جا سکتی ہے۔ یہ اسلئے ضروری ہے کہ اگر ان آیات کا تعلق صرف رسول اکرم  ﷺ کے دور سے تھا اور اب انکی کوئی ضرورت نہیں تو پھر انکے قرآن میں رہنے نہ رہنے سے کیا فرق پڑتا ہے، اور انکو نکالنے کی بات پر آپکو غصہ کیوں آتا ہے؟ آپ تو خود ہی ثابت کررہے ہیں کہ یہ عملاً منسوخ ہیں۔ لیکن اگر انکو قرآن میں ہمیشہ رہنا ہے تو پھر انکی اطلاقیت  applicability بھی ہمیشہ باقی رہیگی اور اس صورت میں ایک مثبت، عقلی،عصری اور تطبیقی تشریح کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور ان دونوں کاموں کیلئے سماجی، قائدانہ اور دانشورانہ پختگی کی ضرورت ہے، نہ کہ صرف روایتی، تقلیدی اور جذباتی ردعمل کی۔ پہلا کام سیاسی قائدین کا ہے اور دوسرا عصری آگہی رکھنے والے روشن دماغ، عقلیت دوست، مستقبل بین، غیر جذباتی، اسلامی مفکرین کا۔ زیرنظر مضمون کا مقصد صرف اتنا ہے کہ( ۱)  ُاس شقی  استحصالی طبقے کو آئینہ دکھایا جائے جو ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو گمراہ کر کے معصوم انسانی خون کی قیمت پر صرف اپنے غیر انسانی ،نسلی اور طبقاتی مفادات کو محفوظ کرنے میں لگا ہے۔( ۲) ہندوؤں  کے سواد اعظم کو ہوشیار کرنا ہے کہ مسلمانوں سے چھٹی پا کریہ طبقہ آپ کو اسی طرح غلام بنانے کے فراق میں ہے جیسا کہ ماضی میں آپ تھے، بلکہ اسکا اصل ہدف یہی ہے۔ ( ۳) اور مسلمانوں سے یہ کہنا ہے کہ آپ احساس کمتری کا شکا ر ہوں نہ مشتعل بلکہ اسطرح کے مطالبات کرنے والوں سے کہیں کہ “Put your own house in order first. “۔درج ذیل سطور میں اس جملے کا مفہوم واضح ہوجائیگا۔

            اگرسنگھی ٹولے جیسے مخلص شانتی پریمیوں اور فرقہ واریت کے جانی دشمنوں کو فساد اور قتل و غارتگری سے واقعی نفرت ہوتی تو وہ صرف قرآن پاک کی ہی بعض آیات کی منسوخی کی آواز نہ اٹھاتے بلکہ سب سے پہلے خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھتے اور خود اپنی دھارمک پستکوں (مذہبی کتب) اور گرنتھوں کے ان اشلوکوں اور منتروں کو منسوخ کرنے کا اعلان کرتے جو سراسر نا انصافی، نسل پرستی، منافرت اور بربریت کی تعلیمات پر مبنی ہیں۔ اور جن  اصلی ہندستانی طبقات  پر ہزاروں سال سے مظالم ڈھائے جاتے رہے ہیں ان سے اپنی اور اپنے پُرکھوں  کی پر تشدد بد سلوکی کیلئے غیر مشروط معافی مانگتے، انکو برابری کا درجہ دیتے ، ان سے شادی بیاہ کے تعلقات قائم کرتے، اور مندروں میں انکو پجاری بناتے، وغیرہ۔ اسکے بعد ہی وہ دوسرے مذہب والوں سے کسی قسم کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتے تھے۔ لیکن صدیوں پر پھیلی تاریخ سے ثابت ہے کہ ان کو نفرت فتنہ و فساد سے نہیں بلکہ غیر ہندوؤں کے وجوداور انکے مذاہب سے ہے۔ لہذا، اقلیتوں کی بیخ کنی کرنے، انکو ناستک  (کافر)، ملیچھ (نجس)، راکشس (شیطان) اور دُشٹ (بدباطن) سمجھنے اور انکے مذہبی مقامات کو تہس نہس کرنے کی غرض سے ان سے جو بن پڑتا ہے کرتے رہتے ہیں کیونکہ ان چیزوں کی واضح تعلیم انکواپنی مذہبی کتب بشمول ویدوں وغیرہ میں ملتی ہے۔ مسلمانوں ،عیسائیوں اور دلتوں یعنی اصل ہندستانیوں پر دن بدن بڑھتے مظالم اسی کا نتیجہ ہیں۔ مسلم اقلیت انکی نسلی بالادستی کی راہ کا سب سے بڑا روڑا ہے کیونکہ مذاہب کے اس بحر مردار میں اسی اقلیت کا دین باوجود تمام تر خواری کے اپنا وجود اورانفرادی تشخص ہنوز برقرار رکھے ہوئے ہے اور اس کانِ نمک میں نمک بننے پر آمادہ نہیں ۔ یعنی ایک گیا گذرا مسلمان بھی مسلمان ہی رہنا چاہتا ہے’محمدی ھندو‘ بننے پر راضی نہیں۔

            سنگھی ٹولےکے ظلمت پسندوں کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ جن باتوں کو لے کر وہ اسلام پر اعتراض ٹھونکنے میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں انکو ہوش نہیں کہ ان سے کہیں زیادہ قابل اعترا ض باتیں خود انکی اپنی مذہبی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ ملک کی تمام ہندو آبادی جو کل آبادی کا تقریباً ۸۰ فیصد ہے یہ پختہ عقیدہ رکھتی ہے کہ “وید”       وغیرہ جیسی کتابیں الہامی، مقدس اور ازلی اور ابدی ہیں۔ شری کرشن “گیتا” میں فرماتے ہیں کہ ”میں ہی ویدوں کو جاننے والا اور فلسفۂ ویدانت کا مصنف ہوں“(۱۵: ۱۵)۔ علاوہ ازیں، “منوسمرتی” ہندو شرعی قوانین کا مستند ترین مجموعہ ہے جو ویدانتیوں اور آریہ سماجیوں دونوں کو قابل قبول ہے۔ اور”شریمد بھگود گیتا” کو براہ راست خدا کا کلام مانا جاتا ہے کہ یہ وعظ وشنو کے آٹھویں اوتار شری کرشن کے منہ سے میدان جنگ میں ادا ہوا (وہاں سے سو میل دور بیٹھے ہوئے سنجے نے خدائی بصیرت کے ذریعے اسکا زندہ مشاہدہ کیا ) اور محفوظ کر لیا گیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت اس بات سے واقف ہی نہیں کہ ان کتابوں میں لکھا کیاہے اور اسکے اصلی ویدک (یعنی ہندو) دھرم کے عناصر ترکیبی تھے کیا۔  انکو خبر ہی نہیں کہ انکی اپنی دھارمک پستکوں میں کیسے کیسے جنگ و جدل پر اکسانے والے منتر اور اشلوک پائے جاتے ہیں۔جنکا کوئی مقابلہ قرآن یا خاصی  تک بائبل سے ممکن نہیں۔ ہندو عوام اس بات سے نا بلد ہیں کہ انکے دینی وجود میں جو نسل پرستی، نارواداری، درشتی، غیر ہندوؤں کو دشٹ اور ملیچھ سمجھنا، عدم مساوات، ظلم و استحصال، ھِنسا  جوبسا اوقات بربریت کی حد کو پہونچ جاتی ہے (جسکا اظہار انسانی قربانی، ستی، نو بیاہتا اوردیگر انسانوں کو آگ میں زندہ بھوننے کے واقعات سے ہوتا رہتا ہے) اِسی ہزاروں سال پرانی مذہبی روایت کا شاخسانہ ہے جو انکی دینی شخصیت  کے رگ و ریشے میں پیوست ہے اور جسکا عملی اظہار اَھِنسا (عدم تشدد) کے تمام تر پروپیگنڈے اور گاندھی اِزم کے باوجود ہوتا رہتا ہے  (کچھ برس پہلے پنّا نامی مقام میں ستی کا بھیانک واقعہ ہوا تھا جسمیں جنونی ہجوم نے مبینہ طور پرنہ صرف یہ کہ بیوہ خاتون کو بچانے کیلئے کچھ نہیں کیا بلکہ الٹے جلتی چتا پرجا بیٹھنے کیلئے اُکسایا، اور اسکے کچھ دنوں بعد  دیوی دیوتاؤں کی خوشنودی کے واسطے بچوں کی عارضی تدفین کی دل دہلادینے والی مذہبی رسم ادا کی گئی جسکو ڈاکٹر کرن سنگھ نے ’بربریت‘ سے تعبیر کیاتھا ) ہِنسا کیلئے انکی داخلی پسندیدگی کا اظہار اس سے بھی ہوتا ہے کہ فسادات کے نام پر یک طرفہ  کشت و خون کے ہر دور کے بعد ہندوؤں کا سواد اعظم تشدد اور غارتگری کی نمائندہ قوتوں کے خلاف متحد ہونے کے بجائے انکا مزید حمایتی بن جاتا ہے۔اسی سبب انکی تعداد پارلیمان میں دو سے بڑھ کر دو سو تک پہونچ جاتی ہے اور پھر عظیم اکثریت میں بدل جاتی ہے۔گجرات کے قتل عام کے بعد ہی مودی کی شہرت  اور گرویدگی میں بے پناہ اضافہ ہوا  جس نے اسکو گجرات سے دہلی پہونچایا اور وہ ابتک طاقتور ترین وزیر اعظم چلا آتا ہے۔ روشن خیال مغربی تعلیم یافتہ ہندوؤں کی ایک معتدبہ تعداد انکی پُر زور مخالفت ضرور کرتی ہے مگر اقلیت میں ہونے کی وجہ سے انکی آواز حالات کا رخ نہیں موڑ سکتی۔  بلکہ اب تو وہ  بھی کسی حد تک ہتھیار ڈالتے  اور فسطائی وَیدِ ک قوتو ں کے ہمنوا ہوتے چلے جارہے ہیں۔

            چونکہ فِتّین حضرات کو شاید تلاوت قرآن سے ہی فرصت نہیں ملتی اسلئے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ انکے علم میں لے آئیں کہ انکی اپنی مقدس کتابوں میں وہ کون سی آیات ہیں جو دنیا میں پھیلے ہوئے فتنۂ وفساد کی اصل جڑ ہیں تا کہ وہ انکو فی الفور اپنی کتابوں میں سے خارج کر سکیں اوران پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر سکیں اور اسطرح بھارت ورش میں فرقہ وارانہ منافرت کو اور کشت و خون  کومزیدپھیلنے سے روکا جا سکے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہم اپنے کرم فرماؤں کے شکریے کا بہترین طریقہ یہی سمجھتے ہیں اور ہمار ااخلاقی فرض بھی یہی ہے کہ انکا دھیان انکے اپنے دروازے کی غلاظت کی جانب آکرشت کرادیں۔

            ہندو دھارمک پستکوں میں چار ویدوں کا استھان سب سے اونچا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ یہ سرشٹی (ابتدائے کائنات) کے ساتھ ہی پرکٹ (ظاہر) ہوئے۔ آریہ سماج کے بانی سوامی دیانندسرسوتی جی کے بقول جو ویدوں کے بڑے بھاری عالم تھے ان کتابوں کو معرض وجود میں آئے ”ایک ارب چھیانوے کروڑ کئی لاکھ اور کئی ہزار برس ہوئے ہیں“ (“ستیارتھ پرکاش”،اردو ترجمہ،چموپتی،۱۹۴۳،صفحہ۲۲۵)۔  مزید یہ کہ کلمۂ الٰہی ہونے کی وجہ سے ان ”ویدوں میں جھوٹ اور تضاد  ذرابھی نہیں“ اور یہ ”مستند بالذات ہیں“۔ آئیے دیکھیں کہ سچّدانند ایشورکے منہ سے نکلی ان سچی کتابوں میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کوابتدائے آفرینش میں ہی کیا درجہ دیا گیا ہے اور انکی جانب کس سلوک کو روا رکھا گیا ہے(بایں صورت کہ ابھی دیگر مذاہب اور انکے ماننے والے  بلکہ تمام انسان پیدا ہونا باقی تھے)۔ اس سلسلے میں بجائے کسی ویدانتی کی تفسیر کے سوامی دیانند جی کے اپنے “وید بھاش” کے ترجمے سے مدد لینا مناسب ترین بات ہو گی:

۱۔”اے سپہ سالار، ۔۔۔طاقت ور راجا کی طرح اپنے طاقت کے ساتھ تیز جال کے ذریعے سے سب دشمنوں کو تہس نہس کرنے والے، انتہائی مہلک ہتھیاروں  سے  اور پھانسیوں میں باندھ کر دشمنوں کو تیروں اور دیگر ہتھیاروں سے دردناک  ایذا     پہونچائیے۔”  (یجر وید ۱۳:۹)

۲-“آگ کے شعلے کے مانند جاہ و جلال والے سپہ سالار! اپنے سپاہیوں کوہر جانب سے برسنے والے برق رفتار آسمانی شعلے کی مانند دشمنوں کے دَل میں گرنے دے۔ ۔۔۔ بے پناہ طاقت کے ساتھ، مہلک ہتھیاروں کو آ گ کے شعلوں اور لپٹ کے ساتھ دشمنوں کے اوپر ہر طرف سے بارش کر دے۔” (یجر وید  ۱۳:۱۰)

۳-“اے آگ کی مانند دشمنوں کو جلانے والے پُرُش! تیز رفتاری کے ساتھ اپنے اور ہمارے  خبیث اور بدباطن  دشمن کو ، خواہ وہ دور ہو یا نزدیک، سخت سزا سے دوچار کر تا کہ وہ ہم کو دکھ نہ دے سکے!” (یجر وید ۱۳:۱۱)  

              ۴۔”اے سخت عذاب دینے والے راج پرش!آپ دھرم کے مخالف دشمنوں کو آگ میں جلا ڈالیں۔ اے جاہ و جلال والے پرش! وہ جو ہمارے دشمنوں کو حوصلہ دیتا ہے، آپ اسکو الٹا لٹکا کر خشک لکڑی کی طرح جلائیں“۔ (یجر وید۱۲: ۱۳) اسکی وضاحت  میں دیانند لکھتا ہے کہ “آگ کی مانند دشمنوں کو جلائیں۔”

            ۵۔ ”اے تیج دھاری ودوان پرش )اے جاہ و جلال والے عالم شخص(!آپ دھرم کے مطابق خبیث دشمنوں کو ایذا دیجئے۔۔۔آپ تیز رو دشمن کے کھانے پینے یا دیگر کام کاج کے مقامات کو اچھی طرح اجاڑدیں اور انکو اپنی تمام طاقت سے ماریں۔۔۔“۔  (یجروید۱۳: ۱۳)

            ۶ ۔  تیرے لے جانے والے شعلے کے لئے تعظیم ہو۔۔۔ ۔ تیرے ہتھیار اور تیری ہتھیار بند فوج ہم سے مختلف دوسرے دشمنوں  کو  ایذا پہونچائیں۔۔۔”   (یجر وید   ۱۷:۱۱ اور ۱۷:۷)

۷۔ اے برہسپتی (دیوتا) ، دھرم والوں کی حفاظت کرنے والے، راکشسوں کےذبح کرنے والے ،دشمنوں کو دفع کرنے والے، رتھ کے ساتھ اڑتے ہوئے،دشمنو ں کو اچھی طرح عذاب دیتے ہوئے،جو دشمن فوج کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے جنگ سے مار کر جیتنے والا ہے۔  وہ ہمارے رتھوں کی حفاظت کرنے والا ہو۔” (یجر وید ۱۷:۳۶)

            ان آیاتِ وید میں ویدک دھرم کے نہ ماننے والوں کو دشمن ، دُشٹ ، خبیث  اور راکشس قرار دیا گیا ہے اور انکوآگ میں جلانے، اذیت دے دے کر مارنے،ذبح کردینے، قیمہ بنا دینے، الٹا لٹکا کر جلانے کے ساتھ ساتھ انکی آبادیوں اور معیشت کو نیست و نابود کردینے کا صاف حکم دیا جا رہا ہے۔ اور اسمیں بجائے اکراہ کے تلذذ کا عنصر خوب محسوس کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ واضح ہو کہ گذشتہ کئی عشروں سے ہندوستان میں ان جیسے الٰہی احکام پر پابندی سے عمل جاری ہے۔علاوہ متعدد مثالوں کے  اسکی ایک نمایاں ترین مثال گجرات کا قتل عام تھا  جہاں ان احکامات کی جزئیات پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف غیر ہندوؤں کو آگ میں بھونا گیا ، بلکہ زندہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چیر کر بدترین اذیت کے ساتھ حاملہ و حمل دونوں کو سپرد آتش کر دیا گیا۔ مسلمانوں پر قہر توڑ دیا گیااور انکے مکانوں دکانوں اور تجارتی اداروں کو پوری طرح اجاڑ دیا گیا۔ (ملاحظہ فرمائیں چند اعترافات: )

ہر مسلم کش فساد میں کم و بیش یہی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے۔ اس بہیمیت کو جو لوگ پیشتر نہ سمجھ پائے ہوں گے ان منتروں کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں۔آگے دیکھئے:

۸۔”۔۔۔ جس موذی کی ہم لوگ مخالفت کرتے ہیں، یا جو ایذا دینے والاہماری مخالفت کرتا ہے، اسکو ہم شیر وغیرہ  جیسے درندوں کے منہ میں ڈال دیں“۔ (یجروید۱۵: ۱۵)

            ۹ ”جو ناپاک اعمال کریں انکو ہتھیاروں سے زیر کرنا چاہیے۔ ۔۔۔ جس دُشٹ (دشمن)سے ہم دُویش(دشمنی) کریں، یا جو دشٹ ہم سے دویش کرے، ہم اسکو ان  شیر جیسی ہواؤں کے جبڑوں  میں رکھ  کرہلاک کریں“۔(یجروید۱۶: ۱۵)

            ۱۰۔ ”۔۔۔ ہم لوگ جس سے دشمنی کریں، اور جودُشٹ ہم سے دشمنی کرے، اسکو ہم شیر وغیرہ کے منہ میں ڈال دیں۔ راجہ وغیرہ بھی اسکوشیروغیرہ کے منہ میں ڈال دے“۔ (یجروید۱۷: ۱۵)

۱۱۔ “۔۔۔ وہ جس سے ہم دشمنی کریں  اور جو ہم سے دشمنی کرے  ہم اسکو ان پانی اورہواؤں کے ایذا رساں منہ میں ڈال دیں، ویسے تم لوگ بھی کرو۔” (یجروید۱۵:۱۸)

            ۱۲۔”ہم لوگ جس دشٹ سے دویش کریں، یا جو ہم سے دویش کرے، اسکو ہم لوگ خونخوار جانوروں کے منہ میں ڈال دیں۔ تم لوگ بھی ایسا ہی کرو“۔(یجروید۱۹: ۱۵)

            ۱۳”۔۔۔جس سے ہم دشمنی کرتے ہیں اور جو ہم سے دشمنی کرتا ہے اسکو ہم ان رودّروں  (ایک خوفناک خلائی مخلوق) کی ڈاڑھ میں دیتے ہیں۔” (یجروید ۶:۶۴ ۱)

            ۱۴۔ ”جن سے ہم لوگ نفرت کرتے ہیں، یا جنکو ہم ناراض کرتے ہیں، یا جو ہم کو دکھ دیتے ہیں، انکو ہم ان ہواؤں کے منہ میں ڈال کر اسطرح دکھ دیں جس طرح بلی کے منہ میں چوہا“۔(یجروید۶۶۔۶۵: ۱۶)

            ۱۵۔ ”۔۔۔ جو کوئی ادھرمی  ڈاکو  ہم لوگوں کی مخالفت کرتا ہے، یا جس دشٹ  دشمن کی ہم لوگ مخالفت کرتے ہیں، تم اس خبیث بدکردار دشمن کو مختلف زنجیروں سے جکڑو، اور اسکو ان زنجیروں سے کبھی آزاد مت کرو“۔(یجروید۲۶۔۲۵: ۱)

            ۱۶۔ ”۔۔۔جیسے میں دشٹ فطرت والے دشمن کو مارتا ہوں ویسے ہی تم لوگ بھی اسکو مارو۔۔۔اے دشٹ انسان! تو کبھی بھی ہدایت کی روشنی حاصل نہ کر سکے۔ تیرا آنند دینے والا علم کا رس تجھے کبھی بھی آنند نہ دے۔۔۔“۔ (یجروید۔۲۶: ۱)

۱۷۔ ” جنگ میں دشمنوں کی فوجوں کو ہر طرف سے مارتی  اور ان پر فتح پانے کی خوشی سے سرشاران علماء کی فوج فتح کرنے والی اور قتل و غارت کرنے والی فوج کا کمانڈر  پیچھے چلے۔۔۔۔” (یجروید ۱۷:۴۰) 

۱۸۔”۔ ۔۔ہیبت  اور ڈر دکھانے   والے] یعنی دہشت گرد [ کی تعظیم۔ دشمنوں کو باندھنے والے کی تعظیم۔ سامنے کے  اور دور کے دشمنوں کوباندھنے اور  قتل کرنے والے کے لئےتعظیم۔  دشٹوں کو قتل کرنے  والے اور کثرت سے قتل کرنے اور انکا قلع قمع کرنے  والے کے لئے بھی تعظیم۔ دشمن کو کاٹ ڈالنے والے کی تعظیم ۔۔۔۔”( یجروید، ۱۶:۴۰)

            ذرا ان آیات کی اخلاقیات پر غورفرمائیں کہ جن میں ایشور ابتدائے آفرینش میں ہی مستقبل میں پیدا ہونے والے آریوں (یا دور حاضر کے ہندوؤں ) کو یہ حکم دے رہا ہے کہ وہ اپنے مخالفین یعنی غیر آریاؤں کو شیر سے پھڑوا ڈالیں، ہوا میں الٹا لٹکا کر اور بدترین اذیت دیکر ماریں،  ان پرآسمان سے  آگ برسائیں، خونخوار جانوروں سے چِروا ڈالیں اور ایسی وحشیانہ اذیت دیکر ماریں جو چوہے کو بلی کے دانتوں تلے چبتے ہوئے  ہوتی ہو گی،  یا کم از کم حبس دوام میں ڈال دیں۔ مگر ان احکام الٰہی میں جو چیز سب سے بڑھ کر انصاف کے گلے پر چھری پھیرتی نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ خواہ آریہ ہندو کسی سے دشمنی کریں یا کوئی دوسرا  غیر آریہ ہندوؤں سے دشمنی کرے، دونوں صورتوں میں اذیت ناک موت سے دوچارغیر ہندو کو ہی ہونا پڑیگا۔ یعنی دشمنی کرنے والا دونوں میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے، مگر شیر اور درندوں کے منہ میں اسی کو ڈالا جائے گا اور ہوا میں الٹا لٹکا کر اسی دُشٹ کو جلایا جائیگا ، اور آگ اسی پر برسائی جائے گی جوآریہ یا ہندودھرم کا پالن نہ کرتا ہو۔ اور اگرشانتی پریمی عوام خود ایسا کرنے پر قادر نہ ہوں تو راجہ (یعنی حکومت وقت) کی مدد سے اپنے دشمن کو بدترین ایذائیں پہونچوائیں اور موت کے گھاٹ اتروائیں۔ یعنی جو ہمارا دشمن اسکی سزا تو ہے ہی موت اور جس کے ہم دشمن اسکی سزا بھی موت۔گجرات کے قتل عام میں یہی دیکھنے میں آیا تھا کہ راجہ نے دشٹوں اور ملیچھوں کے خاتمے کیلئے ہنسا پر اُتارو پرجا کا پورا ساتھ دیا  تھا۔ اورمہا راجہ(مرکزی حکومت) نے اس راجہ کی صوبائی حکومت کو ہر ممکن تحفظ فراہم کر کے بالواسطہ اسکے اعمال کی توثیق کی تھی۔ جب ملک کےمہا راجہ (اُسوقت کے وزیر اعظم) نے صوبائی راجہ  (وزیر اعلیٰ ) سے یہ کہا کہ”راجہ کو راج دھرم کا پالن کرنا چاہئے” تو راجہ مودی نے مسکرا کر بر سر عام جواب دیا کہ  “ہم بھی وہی کر رہے ہیں صاحب۔”  جانے کتنے لوگ سمجھ پائے ہوں گے کہ مہا راجہ نے دراصل کیا کہا اور راجہ کی مسکراہٹ کا کیا مطلب تھا! مہا راجہ نے در اصل انہی احکام الٰہی پر عمل کی تاکید کی (جسکو’ویدک راج دھرم‘سے لاعلمی کے سبب مظلوم اپنی حمایت سمجھے) اور راجہ نے جواباً تصدیق کی کہ میں انہی ازلی اور ابدی احکام پر عمل پیرا ہوں جنکی طرف آپکا اشارہ ہے جس پرمہا راجہ نے اسکی کوئی سرزنش نہیں کی۔ مزید ثبوت یہ کہ اُس قتل عام پر نہ اسکو برطرف کیا نہ کوئی بازپرس کی۔ جو لوگ اس پُر اسرار مکالمے کو اُس وقت سمجھ نہیں سکے ہوں گے اب ان منتروں کی روشنی میں بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔  (اُس مکالمے کے لیے  دیکھئے یہ کلپ:  

قدیم ملکی باشندوں اور آریہ دھرم سے باہر والوں  کو یجر وید میں دشمن اور بے دین  قرار دیا جاتا ہے اور غیر ملکی آریوں کو تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ ملکی  باشندوں کے خلاف  اگنی سے پرارتھنا کریں کہ:

۱۹ “… ۔ دشمنوں سے دولت کے جیتنے والے،  غیر آریوں کو مارنے والے آپکو بہادروں کی فوج راج دھرم کی تعلیم سے منور کرے۔” ( یجروید، ۱۱:۳۴ ،ع ح و)

۲۰۔”۔۔۔تمام علوم کا جاننے والا،سوریہ کی طرح دشمنوں کو مارنے اور دشمنوں کے شہروں کو تہس نہس کرنے والے، آپ کو منور کرتا ہے، ویسے ان آپکو سب عالم لوگ علم اور حکمت سے ترقی دیں۔” ( یجروید، ۱۱:۳۳)

۲۱۔ “اے اگنی ،دشمن گروہوں کو زیر کرو اور دشمنوں کو دور کرو اے ناقابل شکست بے دینوں کو قتل کرو۔ “( یجروید، ۹:۳۷۔ ع ح و)

۲۲۔ “یہ اگنی ہمیں دولت دے اور جنگ میں دشمنو ں کو قتل کرتے کرتے  آگے بڑھے۔ یہ اگنی جنگوں کو جیتے خوراک حاصل کرنے کیلئے ، یہ دشمنوں کو جیتے بہت خوش ہو کر۔”( یجروید، ۴۴:۷۔ع ح و)

 آگے دیکھئے! اگر اتفاق سے شیر وغیرہ یا زنجیریں سر دست میسر نہ آسکیں تو ایسی صورت میں اذیت کیونکر پہونچائی جائے، یہ مشکل بھی ویدوں نے آسان کر دی ہے:

            ۲۳۔ “۔۔۔وہ جس سے ہم دشمنی کریں اور جو ہم سے دشمنی کرے ہم اسکو ان پانی اورہواؤں کے ایذا رساں منہ میں ڈال دیں، ویسے تم لوگ بھی ڈال دو۔”۔( یجروید، ۱۵:۱۸)

یعنی انکو کنویں، تالاب، دریا یا سمندر میں ڈبوڈبو کر ماریں مگر کسی صورت زندہ بچ کر نہ جانے دیں۔چنانچہ،گجرات کے قتل عام میں گھروں میں پانی بھر کر اور اس میں کرنٹ دوڑا کر مذہبی نعروں کی گونج میں تڑپا تڑپا کر لوگوں کو مارا گیا تھا اور یہ واقعہ کسی وحشی دور کا نہیں بلکہ اسی اکیسویں صدی کا ہے۔ اب یہ کس قسم کی مذہبی تعلیمات کا نتیجہ تھا آپ درج بالا منتر کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں۔

           اب ذرا بعض اُن آیاتِ قرآنی کی اخلاقیات بھی ملاحظہ کرتے چلیں جن کے اخراج کا مطالبہ ہے۔:

              ۱۔ اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں تم سے۔ مگر کسی پر زیادتی مت کرو۔بیشک اللہ ناپسند کرتا ہے زیادتی کرنے والوں کو۔ اور ان سے لڑو جہاں پاؤ اور نکال دو انکو جہاں سے انھوں نے تمکو نکالا۔اور فتنہ پردازی لڑنے سے زیادہ بری ہے۔  اور نہ لڑو ان سے کعبے کی مسجد کے پاس جب تک کہ وہ خود ہی تم سے وہاں نہ لڑنے لگیں۔ لڑو ان سے یہاں تک کہ باقی نہ رہے فساد اور حکم ہوجائے اللہ کا۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو       کسی        پر زیادتی جائزنہیں سوائے ظالموں کے……پھر جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پر زیادتی کرو جیسی کہ اس نے زیادتی کی، اور ڈرتے رہو اللہ سے اور جان لو کہ اللہ ساتھ ہے پرہیز گاروں کے۔   (البقرۃ ۱۹۴ ۔۱۹۰)

              ۲۔…… اور کفار تو ہمیشہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ تم کو پھیر دیں تمہارے دین سے اگر قابو پاویں ……(البقرۃ ۲۱۷) 

              ۳۔ اور لڑتے رہو ان سے یہاں تک کہ نہ رہے فساد اور ہو جائے حکم سب اللہ کا۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں تو  اللہ انکے کام کو دیکھتا ہے۔ اور اگر وہ نہ مانیں تو جان لو کہ اللہ تمھارا حمایتی ہے، کیاخوب حمایتی ہے اور کیا خوب مددگار۔ (الانفال ۴۰  )

۴۔اور کیا وجہ ہے کہ تم الله کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے واسطے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کر دے اور ہمارے واسطےاپنے ہاں سے کوئی مددگار بنا دے۔(النساء۷۵)

            ۵۔ اور تیار کرو ان سے لڑائی کے واسطے قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے، کہ اس سے دھاک پڑے اللہ کے دشمنوں پر اور تمھارے دشمنوں پر اور دوسروں پر انکے سواجنکو تم نہیں جانتے اللہ انکو جانتا ہے……اور اگر وہ  جھکیں صلح کی طرف تو تم بھی جھکو اسی طرف اور بھروسہ کر واللہ پر بیشک وہی ہے سننے والا جاننے والا۔اور اگر وہ چاہیں کہ تم کو دغا دیں تو تم کو کافی ہے اللہ…… (الانفال ۶۲)

            ۶۔اور اگر بت پرستوں میں سے کوئی تم سے پناہ مانگے تو اسکو پناہ دیدویہاں تک کہ وہ سن لے کلام اللہ کا۔پھرپہنچادو اسکو اسکی امن کی جگہ، یہ اسواسطے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے۔ (التوبۃ ۶)

            ۷۔سو جب تک وہ تم سے سیدھے رہیں تم ان سے سیدھے رہو بیشک اللہ کو پسند ہیں احتیاط والے۔ (التوبۃ ۷)

            ۸۔ کیا تم نہیں لڑتے ایسے لوگوں سے جو توڑیں اپنی قسمیں اور فکر میں رہیں کہ رسول کو نکال دیں اور انھوں نے پہلے چھیڑ کی تم سے۔کیا ان سے ڈرتے ہو سو اللہ کا ڈر چاہئے تم کو زیادہ اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ پس لڑو ان سے تا کہ عذاب دے اللہ انکو تمہارے ہاتھوں اور رسوا کرے اور تم کو ان پر غالب کرے…… (التوبۃ ۱۴)

اسی کے ساتھ قرآنی آیات میں  یہ تاکید بھی برابر جاری ہے:

            ۹۔ تم کہو، اے اہل کتاب آؤ ایک بات کی طرف جو برابر ہے ہم میں اور تم میں …… (آل عمران ۶۴)

            ۱۰۔ اور تمھارے لئے کسی قوم کی دشمنی، جو تم کو کعبے والی مسجد سے روکتی تھی، تم کو اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ اس پر زیادتی کرنے لگو۔ اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیزگاری پر۔ اور مدد نہ کرو گناہ پر اورظلم پر، اور ڈرتے رہو اللہ سے…… (المائدۃ ۲)

            ۱۱۔اے ایمان والو! اٹھ کھڑے ہوا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی۔ اور تمھاری جانب کسی قوم کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو چھوڑ دو۔ انصاف کرو کہ یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے، اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرتے ہو۔(المائدۃ ۸)

            یہ تو ظاہر ہے کہ ان تمام آیات میں ایکیشور وادیوں  (مؤحدین)کو جنگ کا حکم دیا جارہاہے، مگر کس سے اور کس صورت میں اور کس حد تک؟۔ اُن لوگوں سے جو مؤمنین کے جانی دشمن ہوں، انکے عقیدے کو دنیا سے مٹا دینا چاہتے ہوں، انکا قتل عام کرتے ہوں، انکی بستیاں اجاڑتے ہوں اور انکے گھروں سے انکو نکال دیتے ہوں،  عام بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہوں، بظاہر صلح اور آشتی کا عہد کرتے ہوں اور بباطن عہد شکنی کرتے ہوں اور فتنہ اندازی کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہوں اور ایکیشور وادیوں اور ایکیشور واد   (توحید)کی بیخ کنی پر ہمہ وقت کمر بستہ اور آمادۂ جارحیت ہوں، اورسب سے بڑھ کر یہ کہ لڑائی میں ہمیشہ پہل کرتے ہوں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اسی شدت سے یہ قرآنی تاکید بھی برابر جاری ہے کہ ان پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی انھوں نے تم پر کی اس سے زیادہ نہیں، اور اگر وہ فتنہ وفساد سے باز آجائیں تو تم بھی فوراًہاتھ روک لواسلیے کہ یہ دھرم،  pietyاور برہمچریہ (تقویٰ و پرہیزگاری) کا تقاضا ہے۔ ہر حال میں عدل پر قائم رہنے کی تاکید برابر جاری ہے۔ مزید بر آں لڑائی میں پہل کرنیکی ترغیب ہمیں کہیں نہیں ملتی، اور الٹا لٹکا کر جلانے اور ڈبو کر مارنے اور درندوں سے پھڑوا ڈالنے کا تو نام و نشان نہیں۔ ویدوں والی جانبداری اور انتہا پسندی یہاں نہیں بلکہ بات میں توازن اور عدل کا عنصر حاوی ہے۔محدود ، دفاعی جنگ کا مقصد بھی فتنے کو فرو کرنا اور عدل قائم کرنا ہے،ملک گیری اور عیش کوشی نہیں۔چنانچہ جیسے ہی فتنہ تھم جائے ہاتھ روکنے کا حکم ہے۔صلح کی طرف جھکنے کی ترغیب ہے خواہ اسمیں دغا کا اندیشہ ہی کیوں نہ ہو۔ کیاسنگھی دانشوروں کے خیال میں فسادی حملہ آوروں کے متعلق قرآن کو یہ حکم دینا چاہئے تھا کہ اے ایمان والو! جب وہ تمھیں قتل کرنے آئیں تو خود ہی اپنی داڑھیاں اٹھا کر گردنیں سامنے کردینا، تمھارے گھروں سے تم کو نکالیں تو تم خود ہی گھر خالی کر کے باہر کھڑے ہو جانا، اور اگر تمھاری بستیوں میں آگ لگائیں تو تم فوراً ماچس، گیس کے سلنڈر اورپٹرول لا کر دے دینا؟

            ویدوں میں دیگر مذاہب و نسل کے لوگوں کو تہس نہس کرنے اور انکی آبادیوں کو جلا کر راکھ کر دینے کا موضوع باربار آتا ہے، اور اسکی ایک عملی مثال رامائن میں بھی ملتی ہے یعنی مریادا پرشوتّم (مثالی انسان) شری رام چندر جی نے ایک ذاتی نوعیت کے جھگڑے کی بنیاد پر نہ صرف راون اور اسکے فوجیوں کو تہِ تیغ کیا  بلکہ لنکا کے خوبصورت اور ترقی یافتہ ملک کو مع اسکے تمام باشندوں کے جلا کر راکھ کر آئے، در آنحالیکہ لنکا کے لاکھوں معصوم بوڑھے، عورتیں  اوربچے راون کے عمل میں شریک نہیں تھے ۔ یوں وہ دلخراش المیہ پیش آیا جس کو “لنکا دَھَن” (دھن یعنی سپرد آتش کرنا) کہا جاتا ہے اور جسکا ہر سال دسہرے میں لنکا کو علامتی طور پر جلا کر  ڈرامائی اعادہ کیا جاتا ہے۔ ذرا یادداشت تازہ کریں کہ مکہ پیغمبر اسلام  ﷺکے جانی دشمنوں کا گڑھ تھا اور ان دشمنوں سے آپکی لڑائی عقیدے اور نظریات کی تھی، ذاتی نہیں۔ لیکن جب آپ ﷺ کو مکہ پر فتح نصیب ہوئی تو آپؐ نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف فرما کر رحمت للعالمین ہونے کی عملی مثال قائم کر دی۔ یہاں تک کہ دشمنوں کے سردار ابوسفیان، اسکی بیوی ہندہ، اور بیٹے معاویہ کو بھی معاف کر دیا، اور جب ان تینوں نے اسلام قبول کرنے کی پیشکش کی تو اسکو بھی گوارا کر لیا۔مزید برآں اسکے گھر کو دارالامان قرار دے دیا۔(واضح ہو کہ ہندہ نے آپ ؐ کے چچا حضرت حمزہؓ کی نعش کا مثلہ کیاتھا اور انکا کلیجہ کچا چبایا تھا اور ابو سفیان نے فتح مکہ سے پہلے آپؐ کی اہانت اور ایذا رسانی میں یہاں تک کہ جان لے لینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی صرف اس ضد میں کہ آپؐ ایکیشور وادکی بات کیوں کرتے ہیں)۔  اسکے برعکس شری رام چندر جی کی لڑائی ملکی، سیاسی، نظریاتی ، اخلاقی  یا مذہبی نہیں تھی بلکہ ایک گھریلو معاملے پر تھی اور پھر لنکا کے تمام باشندے راون کے جرم میں شریک نہیں تھے، اسلئے اسکو ملنے والی سزا کے مستحق بھی نہیں تھے۔ لیکن غالباً ویدوں کی مندرجہ ذیل تعلیم کے سبب ہی ان سب کو برباد کردیا گیاہو گا۔ ملاحظہ ہو:  

۲۴۔ ”اے طاقتور اور روشن ضمیرعالمِ انسان!جس طرح ہم لوگ روز بد اطوار لوگوں کے شہر کو آگ کی مانند مارنے والے تجھ خوبصورت ودّوان کو سب طرح سے دھارن کریں، اسی طرح تو ہم کو دھارن کر“۔ (یجروید۔۲۶: ۱۱)

            ۲۵۔ ”اے راجہ! جس طرح حفاظت کرنے والے عالم کا پاک شاگرد سکھ دینے والی آگ وغیرہ پدارتھوں کو حاصل کر کے ویدوں کے علم کو جاننے والا ہو کر۔۔۔ دشمنوں کو مارنے والا اور دشمنوں کے شہروں کو تباہ کر کے آپ کے جاہ و حشمت کو دوبالا کرتا ہے اسی طرح دیگر ودّوان لوگ بھی آپ کو ودّیا اور رونے سے ترقی دیں“۔ (یجروید۔۳۳: ۱۱)

گویا دوسرے مذاہب والوں کی بستیوں میں آگ لگاکر راکھ کر دینا اور انکو تباہ و برباد کرنا’روشن ضمیر انسانوں‘ اور ویدوں کے عالموں کا “فرض منصبی” ہے۔ ہمارے دیش میں غالباًاسی لئے گزشتہ اورموجودہ صدی میں روشن ضمیری اور فرض شناسی میں خاصا اضافہ ہو ا ہے اور اب تویہ روشن ضمیری اپنی انتہاؤں کو پہنچتی معلوم ہوتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ کچھ  منتر  یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر اخلاقی قید سے بے پروا ہو کر اور ہر جائز و ناجائز طریقے سے دیگر مذاہب والوں کا قتل عام کیا جائے تو اس سے ابدی راحت میسر آتی ہے:

            ۲۶۔ ”۔۔۔اے الوہیت کی خواہش رکھنے والے انسان!۔۔۔ جس طرح بھی دشمنوں کو ہلاک کیا جاسکے اسی قسم کے کاموں کو کر کے ابدی راحت سے زندگی بسر کر“۔ (یجروید۔ ۱:۲۸)

            ۲۷۔ ”اے عالم  انسان! جس طرح میں  خدا کے ویدی کلام کی مدد سے  بد کرداروں کی گردن کاٹتا ہوں… ویسے تو بھی کر“۔ (یجروید۔ ۵:۲۳)

اسکے برخلاف، قتل کے بارے میں قرآن کا فرمان یہ ہے:

            “جو کوئی قتل کرے ایک جان کو بلا عوض جان کے یا بغیر فسادکے ملک میں تو گویا قتل کر ڈالا اس نے ساری انسانیت کو اور جس نے زندہ رکھا ایک جان کو تو گویا زندگی دے دی ساری انسانیت کو…… “(المائدۃ ۳۲)

واضح ہو کہ یہ قرآنی وعید  ایک انسانی جان کے بارے میں ہے  نہ کہ ایک مسلمان کی جان کے۔  اس آیت کی مزید تائید میں رسول اکرمؐ ﷺ نے عین  جنگ کے دوران بھی شہریوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں،  اور معذوروں کے قتل سے ، املاک کی بے دریغ تباہی سے، فصلوں کے جلانے سے اور جانوروں کےبے دریغ قتل سے منع فرما دیا۔ کسی کی جان قانونی طور پر لینا صرف ایک صورت میں جائز رکھا گیا کہ قتل کا ارتکاب کیا گیا ہو یا فساد پھیلا کر بہت سی جانوں کو خطرے میں ڈالا گیا ہو۔  چونکہ فساد پھیلانا  کثیر تعداد میں زندگیوں کو اتھل پتھل کردیتا ہے اسلیے اسکو خدا اور رسول سے دشمنی کے مترادف گردانا گیا ہے اور جیسا جرم شدید ہے ویسے ہی اسکی سزا شدید ۔

            راحت ابدی حاصل کرنے اور روشن ضمیر بننے کا یہ فر ض وید مقدس نے عورتوں پر بھی اسی طرح عائدکیا ہے جس طرح مردوں پر۔ بلکہ عورتوں کی ذمہ داری کچھ زیادہ ہی بڑھی ہوئی ہے۔ اسلیے کہ مرد تو آس پاس کے دشٹوں کو مارتے ہی رہتے ہیں مگر عورتوں کو دور دراز کے مقامات کا طویل سفر طے کر کے وہاں رہنے والے غیر ہندوؤں میں سے ایک کو بھی مارے بغیر نہیں چھوڑنا ہو گا۔ قتل عام کرنے کا حکم عورتوں کوبایں الفاظ ملتا ہے:

            ۲۸۔ ”اے تیر اندازی میں ماہر، ویدوں کے ماہر کی تربیت یافتہ ، اے سپہ سالار کی استری! تو میدانِ جنگ کی خواہش کرتی ہوئی دور دراز کے علاقوں میں جا کر دشمنوں سے لڑائی کر اور انکو مار کر فتح حاصل کر۔ تو ان دور دیش میں ٹھہرے ہوئے  دشمنوں میں سے ایک کو بھی مارے بغیر مت چھوڑ“۔ (یجروید۔ ۱۷:۴۵)

چنانچہ ہم نے ٹی وی اسکرین پر دیکھا تھا کہ گجرات کے قتل عام میں ویدک  یا ہندو خواتین (جن میں اچھے گھرانوں کی بھی شامل بتائی گئیں) کس طرح بڑھ چڑھ کرلوٹ مار میں حصہ لے رہی تھیں۔

            وید مقدس کے مطابق غیر مذہب والوں یا بد اطوار لوگوں کی تباہی و بربادی میں اور انکے قتل عام میں پرماتما کو بھی اتنی ہی روچی ہے جتنی کہ اسکے بھگتوں کو۔ یہ دعائیں ملاحظہ ہوں:

            ۲۹۔ ”اے جگدیشور (رب العالمین)! ……میں بدکردار دشمنوں کی ہلاکت کیلئے ۔۔۔آپکو اپنے دل میں قائم کرتا ہوں“۔ (یجروید۔۱:۱۷)

            ۳۰۔ ”ہے پرمیشور!۔۔۔ میں دشمنوں کی ہلاکت کیلئے آپ کو دل کے مرکز میں قائم کرتا ہوں ……بار بار اپنے دل میں قائم کرتا ہوں“۔ (یجروید۔۱:۱۸)

            ۳۱۔  اے ورُن! آپکی سلطنت میں ہم لوگوں کیلئے پانی اور اناج وغیرہ نباتات سریشٹ متِر(پکے دوست) کی مانند ہوں۔ اور جو ہم لوگوں سے دشمنی رکھتا ہو، یا جس سے ہم  لوگ دشمنی رکھتے ہیں، اسکے لئے جل اور اناج سب کے سب دکھ دینے والے دشمن کی مانند ہوں“۔ (یجروید۔ ۶:۲۲)

یعنی ویدوں کو ماننے والا دشمنی کرے یا نہ ماننے والا، دونوں صورتوں میں ویدوں کو نہ ماننے والے کو ہی اُن چیزوں سے محروم کر دینے کی دعا مانگی جارہی ہے جو خدا اپنے بد سے بد تر بندوں بلکہ حیوانات کو بھی عطا کرتا ہے۔ اس تنگ نظری اور تُھڑ دِلی والی دعا کے نتیجے میں، جو پرماتما گویا خود بندوں کو سکھا رہا ہے، مندرجہ ذیل ظالمانہ رویہ ہی پیدا ہو سکتا ہے:

            ۳۲۔ ”مجھ کو چاہئے کہ کوشش کر کے بد اطواراور بد کردار انسان کی بیخ کنی کروں۔ اور جو دان دھرم وغیرہ سے خالی، ظالم بدکردار دشمن ہیں، …انکی صریحاً بیخ کنی کروں“۔ (یجروید۔۱:۷)

۳۳۔”تم اے اندر اور پروت دیوتا ہمارے آگے لڑنے والو، تم اس شخص کو جو ہم پر فوج کشی  کرے اسکو مارو۔ ہتھیار کے ساتھ اسکو مارو۔۔۔ کچلنے والا ہمارے دشمنوں کو چاروں طرف سے کچل دے اے بہادر سب طرف سے انکو کچل دے۔ ” (یجر وید، ۸:۵۳۔ع ح و)

۳۴۔”جو ہم سے دشمنی کرے اور جو ہم سے ہتک آمیز دشمنی کرنے والا شخص ہے اور ہم کو مارنا چاہتا ہے ان سب کو بھسم کرو۔” (یجر وید، ۱۱:۸۰۔ع ح و)

۳۵۔ “چیر ڈال، پھاڑ ڈال، ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ ادھیڑ ڈال، تباہ کردے، اسکو پوری طرح تہس نہس کر دے۔ انگرسی! تباہ کردے اس بدبخت رذیل کو جو برہمنوں کو دکھ دیتا ہے۔” (اتھرو وید، کانڈ ۱۲، سوتر ۵، منتر۵۲)

۳۶  ۔”اگنی اس قابل نفرت بدمعاش کو جلا ڈالے، جسکو تو نے ذبح کر دیا ہو، روند ڈالا ہو۔” (اتھرو وید، کانڈ ۱۲، سوتر ۵، منتر۶۱)
۳۷۔(دیانند کے بقول وید کا انکار کرنے والے کو) “تو چیر ڈال، پھاڑ ڈال، ریزہ ریزہ کر دے۔ اچھی طرح قیمہ بنا دے۔ جھلسا دے، جلا دے، جلا کر خاک کردے۔ آپ اس برہمن کے بدخواہ کو کاٹ ڈالیں، بوٹی بوٹی کر دیں،خوب  اچھی طرح کاٹیں۔ جلائیں، اور زیادہ جلائیں، خوب اچھی طرح جلائیں۔    “(اتھرو وید، کانڈ ۱۲، سوتر ۵، منتر۶۲)

۳۸ ۔”آپ خداؤں کی توہین کرنے والے، فرائض سے لاپروا، برہمن کو نقصان پہونچانے والے پاپی مجرم کے سر اور کندھوں کو سینکڑوں نوکوں والے، انتہائی تیز دھار چُھرے جیسے ہتھیار سے چھید ڈالیں،اسکے شانوں کی ہڈیوں اور سر پرشدید ترین ضربیں ماریں۔ اسکے بالوں کو کاٹ ڈالیں اور اسکی کھال کو ادھیڑدیں۔ اسکی ہڈیوں پر کے گوشت کو بوٹی بوٹی کاٹ ڈالیں اور اسکے عضلات کے بندھنوں کو کچل ڈالیں۔اسکی ہڈیوں کو کوٹ کر سرمہ بنا دیں اورانکو کوٹ کر گودا باہر نکال دیں۔ اسکے سارے اعضاء، جوڑ جوڑ اور بند بند کو اکھاڑ دیں۔” (اتھرو وید، کانڈ ۱۲، سوتر ۵، منتر۶۴۔۷۱)    

            ویدمقدس کی ان تمام آیات کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہندُتواکے احیاء کے اس کل یُگ میں انسانی جانوں کو بے دریغ تلف کرنے، انکی املاک اور بستیاں تباہ کرنے اور انکو زندہ آگ میں جھونکنے ، انکی بیخ کنی کرنے،   اور انکو بدترین ایذائیں دیکر مارنے پر اتنا زور کیوں ہے۔ اگر سنگھی دانشور کہیں کہ یہ قرآن کی چوبیس آیات کی وجہ سے ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن تو اس دیش میں صرف ایک ہزار سال پہلے آیا (اور دنیا میں صرف چودہ سو سال پہلے) جبکہ لڑائی دنگے، چھوت چھات،ستی،بد ترین تشدد، انسانی و حیوانی قربانی اور فتنہ و فساد کی روایت یہاں نا معلوم مدت سے قائم چلی آتی ہے۔ تمام بڑی بڑی لڑائیاں جیسےشری رام چندر جی اور راون کی لڑائی (“رامائن”) جس میں پورے ملک لنکا کو مع اسکے لاکھوں باشندوں کے آگ میں بھون دیا گیا، شری کرشن کی برپا کردہ کورو اور پانڈو کی کُرکشیتر والی لڑائی (“مہابھارت”) جس میں کہا جاتا ہے کہ صرف اٹھارہ دن میں ایک ارب چھ کروڑ ساٹھ لاکھ بیس ہزار لوگو ں کو تہِ تیغ کردیا گیا، علاوہ ازیں، دیگرمقدس ہندو کتابوں میں  مذکور اَن گِنت دوسری لڑائیاں جو بھگوانوں کے بیچ بھی ہوئیں اور انسانوں کے بیچ بھی،سب کی سب اسوقت ہوئیں جب دنیا میں قرآن نام کی کوئی کتاب نہیں پائی جاتی تھی اور نہ حضرت محمدﷺکے پیروکار ہی موجود تھے اورنہ خود آپؐ ہی دنیا میں تشریف فرما ہوئے تھے۔ مزید برآں، مختلف ہندو راجاؤں کے درمیان مستقل چلتی رہنے والی لڑائیوں کا ایک پورا سلسلہ ہے۔مثلاً سرسوتی جی “ستیارتھ پرکاش” (ترجمہ۹۳۴ ۱) میں ہندو تاریخِ کشت و خون درج کرتے ہیں جسکا سلسلہ انکے بقول تقریباً  چارہزار سال کو محیط ہے:

”راجہ کشیمک کے وزیر اعظم وشروا نے راجہ کشیمک کو مار کر ……راجہ ویر سال سین کو ویر مہاپردھان نے مار کر ……راجہ آدتیہ کیتو مگدھ کے راجہ کو پریاگ کے راجہ دھن دھر نامی نے مار کر……راجہ راج پال کو اسکے باجگذار مہال پال نے مارکر……راجہ وکرم آدتیہ نے راجہ مہال پال کو مار کر……راجہ وکرم آدتیہ کو سمدر پال یوگی پیٹھن نے مار کر ……راجہ ملکھ چند نے راجہ وکرم پال کو مار کر……راجہ دامودر سین نے اپنے امراء کو بہت ستایا اسلئے اسکے مشیر دیپ سنگھ نے راجہ کو مار کر……پرتھوی راج چوہان نے جیون سنگھ کو مار کر……راج کیا“۔اور درمیانی وقفوں میں ان ’مارنے والوں‘کی نسلوں نے راج کیا۔ (ص ۳۷۸۔۳۷۵)۔

دیانند جی اس فہرست میں اپنے ہم نسل برہمن پُشیہ متر شونگھ ) ۱۸۵۔۱۴۹ قبل مسیح) کا نام شامل کرنا شاید جان بوجھ کر بھول گئے جس نےاپنے  مالک راجہ  برہدت موریہ کو دھوکے سے قتل کر کے اصل  ملکی باشندوں کی موریہ سلطنت کوختم کیا اوربدھوں کے عظیم شہر ساکیت  (موجودہ اجودھیا) کو پا یۂ تخت بنا کربدھوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا، اور انکے مندروں کو توڑ کر برہمنی مندروں میں تبدیل کر دیا۔ اور اجودھیا کی بدھ مرکزی حیثیت ختم کرکے اسکو ایک ہندو شہر بنا دیا۔

            اسکے علاوہ عورتوں کو ستی پرتھا کے نام پر زندہ جلا دینے اور شودروں پر بھیانک اتیاچاروں کی ایک مستقل تاریخ ہے جسکی بنیاد ہندو مذہبی احکامات ہیں۔ یہ وہ وحشیانہ رسوم ہیں جنکو زوال مسلم اور عیسائی ادوار حکومت میں ہوا۔ بدھ دھرم اور جین دھرم (جسکو ہندوستان کا قدیم ترین مذہب یعنی اصل سناتن دھرم ہونیکا دعویٰ ہے) کو بھی اسلام کے آنے سے پہلے ہی تباہ و برباد کیا جا چکا تھا۔ بقول سوامی دیانند ”شنکر آچاریہ کے وقت میں جین وِدھوَنس (تباہ)      ہوئے یعنی اب جتنے بُت جینیوں کے نکلتے ہیں وہ شنکر آچاریہ کے وقت میں ٹوٹے ہیں۔ جو بغیر ٹوٹے نکلتے ہیں وہ جینیوں نے زمین میں گاڑ دیئے تھے کہ توڑے نہ جائیں۔ وہ اب تک کہیں کہیں زمین میں سے نکلتے ہیں۔“ واضح ہو کہ ہندوؤں نے جینیوں کے بت تو توڑے مگرانکے مندروں کی عمارتیں قبضہ کرنے کی نیت سے چھوڑ دیں۔ سوامی جی کے بقول ”جینیوں کے مندر شنکر آچاریہ اور سودھنوا راجہ نے نہیں تڑوائے تھے۔ کیونکہ ان میں وید وغیرہ کی پاٹھ شالائیں بنانے کا ارادہ تھا“(“ستیارتھ پرکاش”، ص۳۸۲)۔  لالہ سمیر چند جینی جو جینیوں کی ایک مستند کتاب جین مت سار کے مصنف ہیں لکھتے ہیں کہ ”اور ساگاردھرم امرت سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ سمت ۱۰۱۰ بکرمی میں رامانُج ہو جائے ہیں جو شری رام چندر جی کے بڑے بھگت تھے، انھوں نے جینیوں کے سات سو مندر تڑوائے، میسور کے راجہ ہویسال کو جینی سے ویشنوی بنایا، جینیوں کو بڑی تکلیف دی“ (اردو،صفحہ۲۴۹)۔ اصلی بھارت واسیوں یعنی دراوڑوں کو ذلیل و خوار کر کے شمالی ہند سے جنوب کی طرف نزول قرآن سے پہلے ہی بھگایا جا چکا تھا،جو پکڑ میں آگئے انکو دسیو اور شودر بنا کر جانوروں سے بھی کم حیثیت قرار دیا گیا، جو فرار ہو کر جنگلوں میں نکل گئے وہ آدیباسی (یعنی قدیم باشندے) کے نام سے آجتک وہیں محصور ہیں۔ علاوہ ازیں، ویدوں اوربرہمن گرنتھوں میں ’اشو میدھ‘، ’گو میدھ‘ اور ’نر میدھ‘ (یعنی گھوڑے کی قربانی، گائے کی قربانی اور انسان کی قربانی) کا تذکرہ بھی ملتا ہے(دیکھو “رگ وید”، منڈل اول،منتر۱۶۲/ منڈل ۱۰،منتر۹۱، آیت۱۴/ “تیتریہ براہمن”، کتاب ۳، باب۸/ “منو سمرتی”، باب ۵،آیت۱۱۔۱۵)۔دھرمانند کوسمبی کی کتاب “بھگوان بدھ” (اردو ترجمہ،ساہتیہ اکیڈمی، نئی دہلی) میں بودھوں کے مذہبی نوشتے “کوسل سینت” کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”بھگوان بدھ شراوستی میں رہتے تھے، اس وقت پسیندی کوسل راجہ کا مہا یگیہ شروع ہوا، اس میں پانچ سو بیل، پانچ سو بچھڑے، پانچ سو بچھیاں، پانچ سو بکرے اور پانچ سو مینڈھے کھمبوں سے بندھے ہوئے تھے……یہ سب دیکھ کر بھکشوؤں نے بھگوان کو اس سے آگاہ کیا، اس پر بھگوان بولے……ان (یگیوں) سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، بکرے، گئوویں اورمینڈھے جیسے مختلف جاندار جس میں مارے جاتے ہیں، اس یگیہ میں مہارشی شریک نہیں ہوتے۔“ (ص ۳۱۴۔۳۱۳۔ قربانی کا موضوع ایک پورے مضمون کا متقاضی ہے، بخوف طوالت ہم مزید تفصیل میں نہیں جاسکتے)۔ بدھ مت کے زیر اثر گھوڑے اور گائے کی قربانی تو ملک کے بہتیرے حصوں میں رک گئی، البتہ انسانی قربانی کے واقعات اب بھی وقتاًفوقتاًخبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ فلاں باپ نے خوشحالی یا بیماری سے نجات کی خاطر اپنے کم سن بیٹے کاگلا کاٹ کر فلاں دیوی پر بھینٹ چڑھا دیا۔  تو یہ سب آخرکیوں ہوتا رہا؟  اگر یہ سب قرآن کی وجہ سے ہوا تو بھلا اسکے نازل ہونے سے پہلے ہی آریوں نے اس پر عمل کیونکر شروع کر دیا تھا؟سیدھی سی بات یہ ہے کہ یہ سب ویدوں کی تعلیمات کا نتیجہ تھاجو سرشٹی کے ساتھ ہی پرکٹ ہوئے تھے۔اسی لیے انکے ماننے والوں میں فتنہ و فساد اور قتل و غارتگری کا مادہ ازل سے ہے اور انہی سے دوسروں میں پھیلا۔ یہ میں نہیں، مستند عالمِ وید سوامی دیانندجی فرماتے ہیں۔ قدیم آریہ ورت میں ”اگنی استر علوم“ اور توپ بندوق وغیرہ اسلحے کی موجودگی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ”یہ سب باتیں جن سے استر (ہتھیار) شستروں (جنگی اوزار) کو بناتے تھے وہ ’منتر‘ یعنی وِچار ]قوت خیال [سے بناتے تھے اور چلاتے تھے“۔ پھرقدیم ہتھیاروں مثلاً ’اگنی استر‘(مزائل)، ’واُرن استر‘(اینٹی مزائل گن)، ’ناگ پھانس‘، ’موہن استر‘ (کیمیائی بم) کا تذکرہ کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ”اسی طرح سب شستر ہوتے تھے۔اور ایک تار یا شیشے سے یا کسی اور چیز سے بجلی پیدا کر کے دشمنوں کو ہلاک کرتے تھے۔ اسکو بھی اگنی استر نیز پاشو پتا شتر کہتے ہیں۔ توپ بندوق یہ نام غیر ملک کی زبان کے ہیں۔ سنسکرت اور بھاشا میں اسکا نام ’شت گھنی‘ اور جسکو بندوق کہتے ہیں اسکو سنسکرت اور آریہ بھاشا میں ’بُھسنڈی‘ bhusandi  کہتے ہیں“ (ص۲۷۳۔۲۷۲)  – واضح ہو کہ یہ ساری ودیائیں اسلام اور نزول قرآن سے پہلے کی ہیں۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ ان ہنسک علوم (تشدد کی تعلیم دینے والی سائنس) کا مبدا اور مخزن بھی “وید” اور آریہ ورت ہے۔ یہ بھی میں نہیں کہتا، پنڈت سرسوتی جی کہتے ہیں،جنکے بقول”کل علوم کا منبع آریہ ورت ہے اور یہیں سے یہ ودیائیں کل دنیا میں پھیلی ہیں۔ جتنا علم روئے زمین پر پھیلا ہے وہ سب آریہ ورت ملک سے مصر، وہاں سے یونان،وہاں سے روم اوروہاں سے یوروپ اور امریکہ وغیرہ میں پھیلا ہے“ (صفحہ۲۷۳) ۔ ظاہر ہوا کہ  ویدوں سے ہی کشت و خون اور ہتھیار سازی کا فن، انکا استعمال اور دوسری قوموں کو تاراج کرنے کی روایت پھیلی ہے۔ اِنہی سے مذہبی جنون اور ہنسا کی تحریک جلا پاتی ہے اور اس لپیٹ میں صرف غیر مذہب والے ہی نہیں آتے بلکہ بد کردار اور بد اطوارہندو بھی آ جاتے ہیں۔ منہ مانگا جہیز نہ لانیوالی نو بیاہتا بھی اسی مفہوم میں بد کردار وبد اطوار ہوتی ہے کہ وہ اپنے پتی دیو کے حکم پر میکے سے مزید رقم نہیں لا پاتی، لہذا ویدوں کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے شوہر ایسے “دان دھرم سے خالی” اور “بد کردارو بد اطوارانسان کی بیخ کنی” کر دیتا ہے اور “الٹا لٹکا کر خشک لکڑی کی طرح جلا دیتا” ہے۔ ہندوؤں کے ہاں روایتِ تشدد پر روشنی ڈالتے ہوئے بیسویں صدی کے ایک بابصیرت اور روشن دماغ دانشور نیرد سی چودھری اپنی کتاب  The Continent of  Circe by N. C. Chaudhary میں رقمطراز ہیں:

            ”عام خیال یہ ہے کہ ہندو ایک امن پسند اورغیر متشدد قوم ہیں، اور گاندھی ازم نے اس خیال کو مزید مستحکم کیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چند ہی انسانی گروہ ایسے ہوئے ہوں گے جو ہندوؤں سے زیادہ جنگجو اور خونریزی پر فریفتہ رہے ہوں ……اِنکی سیاسی تاریخ کے صفحات خون سے آلودہ ہیں ……اشوک نے خود یہ کہا کہ کلنگ کو فتح کرنے کیلئے، جو اسکے آباو اجداد کی فتوحات میں ایک معمولی سا اضافہ تھا، اسکو ایک پوری جنگ لڑنا پڑی۔ جس کے دوران پچاس ہزار لوگوں کو ملک بدر کیا گیا، ایک لاکھ کو تہِ تیغ کر دیا گیا، اور اس سے کئی گنا زیادہ تعداد دوسرے طریقوں سے موت کے گھاٹ اتار دی گئی……انسانی خون کو بے دریغ بہانے کے گناہ کا جوحد سے حدکفارہ اسکی سمجھ میں آیا وہ بس یہ تھا کہ شاہی باورچی خانے کیلئے ذبح کئے جانے والے جانوروں کی تعداد کم کر دی جائے، یعنی ہزاروں کی بجائے صرف تین جانور،دو مور اور ایک ہرن“۔ چودھری مزید کہتے ہیں کہ”اشوک کے زمانے سے لے کر گاندھی جی کے زمانے تک ہندو نظریۂ سیاست یا عمل میں ’عدم تشدد‘ پر ایک لفظ نہیں ملتا، یہ تاریخ صرف فتوحات اور ملک گیری سے عبارت ہے۔……سارا سنسکرت ادب کلاسیکی رجزیوں سے لے کر جدید طویل نظموں تک جنگوں کے منظر نامے اور فتوحات کی دل خوش کن منظر کشی سے بھرا پڑاہے۔ ہندو راجاؤں کا بس یہی ایک وظیفہ تھا۔ ……سارے آریہ ورت میں  مانوس ترین آواز ایک ہی تھی،یعنی بیوائیں اپنے مقتول شوہروں کی یاد میں بین کرتی ہوئی جنکو دلاسہ دینے کوئی نہیں آتا۔ ……اپنے لوگوں کے جنگجویانہ تشدداور خونریزی کی عادت سے گھبرا کر قدیم ہندو معلمین اخلاق نے اس کو لگام دینے اور مذہبی تقدس عطاکرنے کیلئے جنگ کا اخلاقی تصور گڑھ لیایعنی ’دھرم یدھ‘…… ” ]واضح ہو کہ اسلام میں ‘دھرم یدھ’  یعنی ‘دینی جنگ’ کا کوئی مترادف موجود نہیں ہے،  نہ اسکا حکم یا اجازت ہے ، اور نہ’جہاد’ اس اصطلاح کا ہم معنی ہے، عاصم[۔ “ناقابل تصور ہے کہ کوئی ہندو جنگ کرے اور اسکو دھرم یدھ قرار نہ دے۔“ چودھری نے ہندوؤں کے تصور اہنسا (عدم تشدد) کوانکی تاریخ میں جاری رہنے والی بدترین ہنسا (تشدد) کا رد عمل قراردیا ہے، کہتے ہیں ”ہندوؤں نے کبھی ’انسانوں سے پیار‘ (حب الناس)کو ایک مثبت قدر کے طور پر رواج نہیں دیا، بلکہ اسکو صرف تشدد اور قتل سے احتراز کا مترادف جانا۔ ہِمسا ایک سنسکرت لفظ ہے جسکے معنی ہیں تشدد اور قتل۔ اسکی ضد بنانے کیلئے اس سے پہلے’اَ‘ کا سابقہ لگا دیا گیاجسکا مطلب ہے ’عدم‘ یا ’غیر‘ جیسے انگریزی کا non    ۔اسطرح لفظ بنا اَہِمسا ‘جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہِمسا ایک ایجابی رویہ رہا ہے اور ’اَہِمسا‘ محض سلبی“(میں نے جستہ جستہ فقرے ترجمہ کر دئے ہیں، پوری تفصیل کے لئے دیکھوصفحات ۱۲۵۔۹۹،  جَیکو پبلشنگ ہاؤس، ممبئی، ۱۹۹۹،عاصم)

            چونکہ ہر مذہبی رویے کی بنیاد عقیدے میں ہوتی ہے اسلئے بجاطور پریہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کونسا فلسفۂ حیات و ممات ہے جو بعض انسانوں کو ایذارسانی اور خوں ریزی پر اسقدر جری بنا دیتا ہے کہ تڑپتے، جھلستے اور بلکتے انسانوں کو دیکھ کر بھی انکا کلیجہ نہیں پسیجتا؟ اس سوال کا جواب آپکو شری کرشن جی کے اُپدیش “شریمد بھگوت گیتا”   میں ملے گا۔ (اردو ترجمہ، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی،      ۱۹۸۳ ء) ]یعنی”نغمۂ یزداں” جو “مہابھارت”کی چھٹی کتاب میں کرشن اور ارجن کے ددرمیان مکالمےکی صورت میں وارد ہوتا ہے [.

            مظلوم پانڈوؤں کی جانب سے میدان جنگ میں اترنے والے شریف النفس اَرجُن نے اپنے سامنے ”چچا، استاد، ماموں، بھائی، بیٹے، پوتے، دوست، احباب اور خسر“ وغیرہ کو صف آرا دیکھا۔ یہ سوچ کر کہ وہ ان اعزا و اقربا کے قتل کی نیت سے آیا ہے ارجن کا سر چکرانے لگا۔ رحمدلی، شرافت اور ایثار کے جذبے سے سرشار ارجن نے کہا: ”اے کرشن!انھیں مارکر میں فتح نہیں چاہتا، نہ مجھے حکومت چاہئے نہ بادشاہت اور نہ ہی عیش۔دیکھو تو سہی ہم لوگ دانشمند ہو کر بھی حکومت کے عیش کے لالچ میں اپنوں کو مارنے کیلئے تیار ہو گئے ہیں، کتنے بڑے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں“(۴۷۔۲۶: ۱)۔ صلہ رحمی کے جذبے سے مغلوب ارجن نے مزید کہا کہ میں اپنے بزرگوں ”کو میدان جنگ میں تیروں کا نشانہ کس طرح بناؤں؟۔۔۔ یہ تو اس قابل ہیں کہ انکی تعظیم و حرمت کی جائے……میں نہیں لڑونگا“ (۵۔۳ اور ۹:۱) ور وہ گانڈیو پھینک کر بیٹھ گیا۔

            ارجن کے جواب میں شری کرشن نے کوئی فلسفۂ ظلم و عدل پیش نہیں کیا۔نہ یہ جتایا کہ کوروؤں نے جو تمھاری جائداد پر قبضہ کر لیا ہے تو انکی یہ خطا ایسی ہی خطرناک، دنیا کیلئے سم قاتل اور ناقابل معافی ہے کہ ان سب کو موت کے گھاٹ اتار دینا ہی مسئلے کا واحد حل ہے اور ان  میں کا ہر فرد اس سزا کا مستحق ہے۔ اور ایک مرتبہ ان سب کو قتل کردیا گیا تو پھر دنیا میں نا انصافی اور ظلم و جور کی جڑ کٹ جائیگی۔اسکی بجائے انھوں نے فلسفۂ حیات و ممات پر مشتمل ایک طویل خطبہ دیا۔ اس فلسفیانہ خطبے میں شری کرشن چندر جی نے تصور قتل ہی کو بدل ڈالا۔ انھوں نے فرمایا:

۱۔”تو ایسی بات کا غم کرتا ہے جسکا غم نہ کرنا چاہئے……کسی کی جان جائے یا رہے عالم اسکا کچھ افسوس نہیں کرتے۔“  (گیتا ،۱۱: ۲)

۲۔”جس شخص میں غرور نہ ہو، جسکی قوت استدلال متاثر نہ ہو وہ آدمیوں کو قتل بھی کرے تو قاتل نہیں اور نہ قید و بند میں ہے۔“  (گیتا ،۱۷: ۱۸)

۳۔”حقیقت میں تو ایسا ہے نہیں کہ میں،تو یا یہ راجہ کسی وقت معدوم تھے یا مستقبل میں ہوں گے“۔(گیتا ،۱۲: ۲)

۴۔”جس طرح جسم کے اندر رہنے والی (آتما) کو اس دنیا میں بچپن، جوانی اور بڑھاپا حاصل ہوتا ہے، اسی طرح آئندہ بھی دوسرا جسم ملتا ہے۔ اسلئے عقلمند ان حالات سے نہیں گھبراتے“۔ (گیتا ،۱۳: ۲)

۵۔”روشن ضمیروں نے یہ حقیقت معلوم کی ہے کہ مجازی کا وجود نہیں اور حقیقت کو فنا نہیں۔“(گیتا ،۱۶: ۲)

۶۔”لافانی، پائدار اور بے انداز جسم کے یہ اجسام فانی ہیں اسلئے اے بھارت!جنگ کر۔“ (گیتا ،۱۸: ۲)

۷۔جو اسے (روح کو) مارنے والی مانتا ہے اور جو مرنے والی مانتا ہے دونوں جاہل ہیں۔ وہ (روح) نہ تو مرتی ہے نہ مارتی ہے نہ تو وہ پیدا ہوئی ہے اور نہ اسکو موت ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ (ایک مرتبہ) ہو کر پھر کبھی نہیں ہوتی ہو۔ یہ پیدائش سے مبرا، دائم، لافانی اور قدیم ہے۔ اگر جسم مارا بھی جائے تو یہ نہیں ماری جاتی۔”( گیتا ،۲۰۔۱۹: ۲)

۸۔ ”اے پارتھ!جس انسان نے یہ جان لیا کہ وہ (روح) پائدار، دائم، پیدائش سے مبرا ور کبھی خرچ (برباد)نہ ہونے والی ہے اسکے پاس یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ کون مارتا ہے اور کون مرتا ہے“۔ (گیتا ،۲۱: ۲)

۹۔ ”جس طرح ایک آدمی بوسیدہ کپڑے اتار کر نئے پہنتا ہے اسی طرح جسم میں رہنے والی روح فرسودہ جسم کو چھوڑ کر نئے جسم میں داخل ہوتی ہے۔”( گیتا، ۲۲: ۲)

۱۰۔”اس (روح)کو ہتھیار کاٹ نہیں سکتے، آگ جلا نہیں سکتی، پانی گیلا نہیں کر سکتا، ہوا خشک نہیں کر سکتی، یہ کبھی بھی نہ کٹنے والی، تر نہ ہونے والی، خشک نہ ہونے والی، پایدار، محیط، قائم، غیر متحرک اور قدیم ہے۔“   (گیتا ،۲۴۔۲۳: ۲)

۱۱۔ ”جو پیدا ہوا ہے اسکو موت بھی یقینی ہے اور جو مرتا ہے اسکا پیدا ہونا لابدی ہے۔ اسلئے جو چیز ناگزیر ہے اسکے لئے افسوس مناسب نہیں ہے۔”(گیتا ، ۲۷: ۲)

۱۲۔”اے بھارت! تمام جاندارآغاز میں نامعلوم، درمیان میں معلوم، اور مرنے کے بعد پھر نا معلوم ہوتے ہیں۔ جب سب ہی کی حالت ایسی ہے تو پھر افسوس کس بات کا ہے؟” (گیتا ،۲۸: ۲)

۱۳۔”تجھے اپنے فرض (دھرم) کے پیش نظر بھی ہچکچانا مناسب نہیں، (کیونکہ) کشتری کے لیے حق کے واسطے جنگ کرنے سے زیادہ باعث فخر اور کوئی کام نہیں ہو سکتا، ایک کشتری کے مفاد کی خدمت، جنگ کے فریضے کی ادائی سے بڑھ کر جو فرض منصبی کے طور پر عاید ہوتی ہے، اور کوئی نہیں ہو سکتی۔“ (گیتا ،۳۱: ۲)

۱۴۔ “اور اگر تو اپنے دھرم کی پیروی میں اس حق کی جنگ میں حصہ نہ لے گا تو اپنے دھرم اور پائی ہوئی عزت کو برباد کرکے گناہ حاصل کریگا۔” (۳۳: ۲)

۱۵۔”لوگ تیری بدنامی کا ہمیشہ تذکرہ کریں گے اور ایک باعزت آدمی کے لئے بدنامی موت سے بد تر ہوتی ہے۔”( گیتا ،۳۴: ۲)

۱۶۔مہارتھی یہ سمجھیں گے کہ تو خوف زدہ ہو کر میدان جنگ سے بھاگ گیا ہے اور تو جو ابتک انکی نظروں میں تعظیم کے قابل تھا اب حقیر ہو جائیگا۔” ( گیتا ،۳۵: ۲)

۱۷۔”جنگ کرنے کے بعد اگر تو مارا جائے تو تجھے جنت (سورگ)ملے گی اور فتحیاب ہو گا توزمین تیرے اقتدار میں ہو گی۔ اس لئے اے کنتی کے بیٹے!جنگ کا عزم کر کے اٹھ!”  ( گیتا ، ۳۷: ۲)

۱۸۔”……اسلئے تو کمر بستہ ہو اور اپنے لئے شہرت حاصل کر، اپنے دشمنوں پر فتح پا کر دولت سے بھری ہوئی حکومت حاصل کر، میں ان (دشمنوں) کو پہلے ہی مار چکا ہوں تو محض ظاہری سبب بن۔“ (گیتا ،۳۳: ۱۱)

            اس وعظ میں پہلے توشری کرشن نے حقیقت روح پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ارواح ازلی اور ابدی ہیں۔ انکو زوال نہیں، نہ یہ مارتی ہیں نہ مرتی ہیں، اور ایک لافانی ابدی وجود میں قائم ہیں۔ پھر یہ کہ اجسام (bodies) مجازی، غیر موجود اور فانی ہیں، ایک نہ ایک دن انکو مرنا ہی ہے۔یہ اجسام روح کا بیرونی لباس ہیں جنکوبوسیدہ ہونے پراگر بدل دیا جائے تو اسمیں غم کی کیابات ہے؟ عارف اور گیانی اس حقیقت سے واقف ہیں۔ چنانچہ اگر کسی روح کے کپڑے اتار دیے جائیں تو انھیں کوئی غم نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ خود ہی ان کپڑوں کو اتار دیں تب بھی نہ قاتل قرار پاتے ہیں نہ گنہ گار۔اسلئے کہ وہ اس حقیقت عظمیٰ کا ادراک رکھتے ہیں کہ انھوں نے صرف جسم کو مارا ہے روح کو نہیں جو لافانی اور ابدی اور کسی بھی نقصان سے بالاتر ہے۔ لیکن ہماری مشکل یہ ہے کہ اس فلسفے میں تصور قتل بدل گیا۔ اس دنیا میں روح اور جسم کے باہمی اتصال کوہی زندگی کہتے ہیں، اور انہی دونوں کے الگ ہو جانے کو موت۔ اگر کوئی غیر طبعی طریقے سے دونوں کو الگ کر دے تو اسکو قتل کہا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے کو قاتل۔اب اگر یہ کہا جائے کہ روح قتل سے پہلے بھی تھی اور بعد میں بھی رہی چنانچہ قتل واقع نہیں ہوا تو یہ قابل تسلیم نہیں ہوگا۔ اسلیے کہ جب جسم کومردہ کردیا گیا اور روح جسم سے علاحدہ ہو گئی تو قتل واقع ہو گیاچاہے اسکے بعد یا پہلے روح کا کچھ بھی ہو۔ مثال لیجئے۔ میری جیب میں پیسے تھے۔ جیب کترے نے جیب کاٹ کر وہ پیسے نکال لئے اور اپنی جیب میں رکھ لئے۔ چوری واقع ہو گئی۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پیسے پہلے بھی جیب میں تھے اب بھی جیب میں ہیں صرف جیب بدل گئی اسلئے گیانیوں کے نزدیک یہ چوری نہیں کہلائے گی۔ صرف ‘تبدیلئ جیب’  کہلائے گی، جسکے لئے جیب کترے کو افسوس کرنے کی ضرورت ہے اور نہ پولس کو اسے پکڑنے کی۔ بالفرض یہ فلسفہ صحیح بھی ہو تو کوروؤں کے سلسلے میں اسکا اطلاق کیوں نہیں کیا گیا؟ یعنی یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ جائداد پہلے بھی  اسی جگہ پر تھی جہاں اب ہے اور آئندہ بھی  اسی جگہ  رہے گی، صرف اس نے اپنے مالکان بدل لیے، اسلئے اسکو بے ایمانی  یا غصب نہیں کہا جائیگا؟ کوروؤں کو اس حقیقت کا گیان ہے اسلئے وہ جائداد ہڑپ کر کے بھی غاصب نہیں ہوئے۔ دوسرا مسئلہ جو پیدا ہوتا ہے وہ اس سے بھی اہم ہے۔ شری کرشن ارجن کو جنگ پر اسلئے اکسا رہے ہیں کہ کوروؤں کو انکی بے ایمانی کی سزا دلانا  مقصود ہے۔ لیکن پتہ یہ چلا کہ اصل حقیقت صرف روح کی ہے جسم کی نہیں۔  یا بالفاظ دیگر، جسم روح کی سواری ہے۔ارادہ اور عمل روح کا ہوتا ہے جسکو وہ جسم کی مشین کے ذریعے انجام دیتی ہے۔ اور مشین جب پرانی ہوجاتی ہے تو وہ اسکوبوسیدہ کپڑوں کی طرح بدل کر نئی مشین اختیار کر لیتی ہے۔ یعنی کارِ گناہ اور کار ِثواب دونوں کی ذمہ داری روح کی ہوئی، جسم کی نہیں، تو پھر جزا و سزا کی مستحق بھی وہی ہوئی۔ لیکن سزا ساری بھگتنی  پڑتی ہے جسم کو اسلئے کہ روح ”کو ہتھیار کاٹ نہیں سکتے، آگ جلا نہیں سکتی، پانی گیلا نہیں کر سکتا، ہوا خشک نہیں کر سکتی،یہ کبھی بھی نہ کٹنے والی، تر نہ ہونے والی، خشک نہ ہونے والی، پایدار، محیط، قائم، غیر متحرک اور قدیم ہے“(۲۴۔۲۳: ۲) ۔ ارجن جنگ کر کے صرف کوروؤں کے جسموں کو کاٹ کر مردہ کردیگا لیکن انکو استعمال کر کے جن روحوں نے گناہ اور ناانصافیاں کی تھیں وہ بلا کسی گزند کے قائم و باقی رہیں گی اور پھر کسی نئے قالب میں جلوہ گر ہو جائیں گی اور انکے نئے گناہوں کیلئے انکے نئے قالب کو سزا بھگتنا ہوگی۔ پھر ایک مثال لیجئے۔ ایک شخص کو رولس رائس گاڑی مل گئی۔ وہ اسمیں بیٹھااور اسکو چلانا شروع کیا۔ پہلے وہ گاڑی کوشراب خانے لے گیااور شراب پی، پھر قحبہ خانے پہنچا اور زنا کیا، پھر قمار خانہ پہنچا اور جوا کھیلا، پھر کسی مالدار کے گھر اس گاڑی کے ذریعہ پہنچا اور ڈاکہ ڈالا۔ مالدار آدمی نے پولس کو خبر کر دی۔ پولس نے گاڑی کا پیچھا کیا۔ وہ شخص گاڑی دوڑاتا پولس سے بچتا پھرا۔ مگر آخر کار پولس نے اسکی گاڑی کو گھیر ہی لیا۔ اور گاڑی پر ڈنڈوں اور ہتھیاروں سے حملہ کر دیا۔ وہ شخص آرام سے گاڑی سے نکل کر ایک طرف کو کھڑا ہو گیاکہ پولس کو اس پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں۔ پولس گاڑی کو اچھی طرح توڑ تاڑ کر اسکاکچومر نکال کر چلی گئی۔ اور اس شخص کو ایک نئی کیڈلیک مل گئی اور اسمیں بیٹھ کو وہ پھر سے انہی اعمال میں مصروف ہو گیا۔ اور پھر سے وہی قصہ دہرایا گیا۔اب آپ یہ بتائیں کہ گاڑی اس شخص کے کسی عمل اور ارادہ کیلئے ذمہ دار نہیں، مگر سزابرابرگاڑی کو مل رہی ہے، اصل گنہ گار کو کیا سزاملی؟

            اس پورے خطبے میں ظلم کی تعریف، عدل کی تعریف، استحصال کی تعریف، ملکیت و وراثت کی تعریف  وغیرہ کہیں نہیں ملتی۔ البتہ تصور قتل کی تبدیلی کے ساتھ شری کرشن ارجن کو کشتری کا فرض یعنی جنگ کرنا یاد دلاتے ہیں، دھرم اور عزت کی بربادی کا احساس دلاتے ہیں، بدنامی اور بزدلی کے طعنے سے ڈراتے  ہیں، موت کی صورت میں جنت کی خوشخبری اور فتح کی صورت میں شہرت،دولت اور حکومت کا لالچ دیتے ہیں، مگر اِس دنیوی زندگی میں عدل و انصاف و مساوات قائم کرنیکی کوئی تلقین نہیں کرتے۔ نسل پرستی، اونچ نیچ اور عیش و عشرت کو تج دینے کی تلقین بھی نہیں ملتی، بلکہ فرماتے ہیں کہ تو”اپنے لئے شہرت حاصل کر، اپنے دشمنوں پر فتح پاکر دولت سے بھری ہوئی حکومت حاصل کر (۳۳: ۱۱)“۔ خاص طور سے قتل کی نئی فلسفیانہ تعبیر سے موجودہ انسانی زندگی (یعنی روح و جسم کی یکجائی)کی اہمیت سرے سے ختم ہوتی محسوس ہوتی ہے اور قتل بچوں کا کھیل بن جاتا ہے۔ اوریہی وہ فلسفہ ہے جس نے بعض انسانوں کو بعض دوسرے انسانوں کی زندگی سے کھلواڑ کرنے پر جری کر دیا ہے۔ اور وہ  بلا جھجھک انکے بوسیدہ کپڑے اتار کر،انکی ارواح کو ‘حیات ابدی’ سے ہمکنار کرکے، اپنے ‘عارف حقیقت’ ہونے کا ثبوت دینے میں لگے ہیں۔ پس نہ وہ ’قاتل‘ کہلاتے، نہ’قیدو بند‘ کی صعوبت اٹھاتے، نہ’افسوس‘ کرتے ہیں۔بلکہ گورو یاترائیں نکالتے ہیں۔

            غیر مذہب والوں کو تو چھوڑیئے، خود اپنے ہم مذہب لوگوں کیلئے ہندوؤں کے استحصالی طبقے (یعنی غیر ملکی آریہ جو اپنے منہ سے خود کو اعلیٰ ذات کہتا ہے)نے گوتم دھرم شاستر (چھ سو  سے چار سو قبل مسیح )    اور منوسمرتی (بارہ سو سے پانچ سو قبل مسیح)     میں جو ظالمانہ ترین احکامات گڑھے ہیں اسکے سامنے ہٹلر کی یہود سوزی اور یہودیوں کی عرب کشُی اور عیسائی یوروپیوں کی ریڈ انڈین کشُی لڑکو ں کا کھیل معلوم ہوتی ہے۔واضح ہو کہ لفظ ’آریہ‘ بذات خود نسل پرستانہ  اور متکبرانہ ہے۔ اسکا مطلب ہے ‘اعلیٰ یا اشرف انسان’۔ )یعنی وہی خبط جو آریہ ہٹلر اور قدیم ایرانیوں کو بھی تھا) ۔یعنی آریوں کے علاوہ باقی انسان ’اناریہ‘ یعنی ادنیٰ اور غیر شریف  اور بدمعاش ہیں۔ لفظ ’اناڑی‘اِسی اناریہ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ دنیا کے وحشی ترین ممالک میں بھی کمزوروں پرشاید ہی اتنے مظالم ڈھائے گئے  ہوں جتنے شودروں اور آدی باسیوں پر شانتی پریمیوں کے اس دیش میں ہندو مذہبی شریعت کی بنیادپر مسلسل ڈھائے جاتے رہے ہیں ۔ قرآن نے تو اصطلاحی ” کافر” انکو قرار دیا ہے جو ایک ایشورکی پوجاکرنے والے بھکتوں (مسلمانوں)اور ایکیشورواد (اسلام) کو نیست و نابود کرنے کیلئے جنگ و جدال پر اتر آئے ہوں اور انہی لوگوں سے محدود  دفاعی جنگ کرنے کا حکم بھی ہے،باقی امن پسند غیر مسلموں سے نہیں۔ (یہ مسلمانوں کی سخت زیادتی ہے کہ وہ تمام غیر مسلموں کو بے احتیاطی کے ساتھ کافر کہہ دیتے ہیں،جبکہ  قرآن تو یہ کہتا ہے کہ خود مسلمان بھی کفر و شرک کے مرتکب ہو سکتے ہیں) مگرہندو شریعت تو خودہندو دھرم ماننے والوں کے پر امن اور زبردستی خادم بنائے گئے طبقے کے ساتھ بدترین اور سفاکانہ ظلم کا حکم صادر کرتی، برہمن کی جابنداری کرتی اوربرہمن پرستی کی ترغیب دیتی ہے۔ مثال کے طور پر چند ہی اشلوک دیئے جا رہے ہیں:

            ۱۔ ”تمام پدارتھوں(اشیاء)  میں جاندار افضل ہیں۔ جانداروں میں ذی شعور حیوان سب سے افضل ہیں۔ ان سب سے افضل انسان ہے۔ اور انسانوں میں سب سے افضل برہمن ہے۔“(منو سمرتی،  ۹۶: ۱)

            ۲۔ ”پرمیشور نے خزانۂ د ھرم کی حفاظت کے واسطے  بصورت براہمن نزول فرمایا ہے۔دنیا میں جسقدر اشیاء ہیں۔وہ سب برہمن کی ملکیت ہیں۔ چونکہ برہمن برہما جی کے مکھ  (منہ)سے پیدا اور جنم سے افضل ہے۔اسلئے وہ ان تمام اشیاء کا مالک ہے۔” (منو سمرتی،  ۹۹۔۱۰۰: ۱)

            ۳۔ ”برہمن کھشتری ویش کو چاہیے کہ وہ  تدبیر کے ساتھ اس ملک  ] آریہ ورت [میں رہیں۔ شودر لوگ بھوک پیاس کے مارے جہاں مرضی ہو مارے مارے پھریں۔“ (منو سمرتی،  ۲۴: ۲)

            ۴۔ ”شودروں کے سے نام والی لڑکی سے شادی تک نہ کرنی چاہئے“۔ (منو سمرتی، ۹: ۳)  ]یعنی جسکا نام شودروں جیسا ہو ،چاہے  وہ خود شودر  نہ ہو۔[

            ۵۔”شودر کی لڑکی کو اپنے پلنگ پر بٹھانے سے براہمن نرک  (دوزخ) میں جاتا ہے۔۔۔” (منو سمرتی،  ۳:۱۷)

            ۶۔ ”جس گاؤں میں شودر کا  راج ہے اور جس میں اَدھرمی، پاکھنڈی، چانڈال آدمی ] یعنی نیچ غیر آریہ   [فساد کرتے ہوں اس گاؤں  میں نہیں رہنا چاہئے۔” (منو سمرتی، ۶۱: ۴)

            ۷۔”شودر کے لیے ایک ہی دھرم پربھونے  ٹھہرایا یعنی صدق دل سے ان تینوں ورنوں(برہمن،  کشتری،  ویش) کی خدمت کرنا۔” (منو سمرتی،  ۱:۹۱)

            ۸۔ ”شودر عورت کا منہ چومنے والے یا شودر عورت کے منہ کی ہوا لگنے سے یا ا س سے پیداشدہ اولاد کی کبھی شدھی نہیں ہو سکتی۔ ایسے براہمن کا پرائشچت (توبہ)   شاستر میں نہیں ہے  (یعنی وہ پیدائشی اور ابدی ناپاک ہیں)۔” (منو سمرتی، ۱۹: ۳)

            ۹۔”سور سونگھے سے ، مرغا  پر کی ہوا دینے سے ، کتا دیکھنے سے، شودر چھونے سے ناش (برباد)کرتا ہے۔”(منو سمرتی، ۳:۲۴۱)

            ۱۰۔ ”شودروں کو نہ عقل کی بات بتائے، نہ انکو یگیہ کا بھوجن دے، نہ انکو دھرم کا اپدیش دے، نہ انکو برت بتاوے۔“(منو سمرتی، ۸۰: ۴)

            ۱۱۔”شودروں کے پاس وید منتر نہ پڑھے۔”(منو سمرتی، ۹۹: ۴)

            ۱۲۔ ”جو شخص شودر کو دھرم کا اپدیش کرتا ہے۔ یا پرائشچت(توبہ)  کرواتا ہے۔ وہ مع اس شودر کے جہنم کے سب سے نچلے طبقے (اسَمبَرَت)میں جاتا ہے۔“ (۸۱: ۴)

            ۱۳۔ ”اگر کوئی شودرکسی برہمن، کھتری یا ویش کو گالی دے تو اسکی زبان کاٹ ڈالنی چاہیے، اسلئے کہ شودر کی پیدائش ہی ناپاک ہے۔”(منو سمرتی، ۲۷۰: ۸)

            ۱۴۔ ”اگر کوئی شودر کسی برہمن یا کھتری کو اسکا نام لیکر بلائے تو اسکے حلق میں بارہ انگل( ایک فٹ )لمبی لوہے کی جلتی  ہوئی میخ ٹھونک دینی چاہیے۔”(منو سمرتی، ۲۷۱: ۸)

            ۱۵۔ ”اگر کوئی شودر کسی برہمن کو دھرم کی بات کہے یا نصیحت کرے تو راجہ کو چاہیے اس شودر کے منہ اور کان میں ابلتا ہوا تیل ڈال دے۔”(منو سمرتی، ۲۷۲: ۸)

            ۱۶۔ ”اگر شودر لاٹھی یا ہاتھ سے مارے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، اگر لات مارے تو اسکا پاؤں کاٹ دینا چاہیے۔“(۲۸۰: ۸)

            ۱۷۔ ”اگر کوئی شودر کسی دوئج (برہمن، کشتری یا ویش) کے برابر بیٹھے تو اسکی کمر میں داغ دیکر گاؤں سے باہر نکال دینا چاہئے یا اسکے چوتڑوں کو اسطرح تھوڑا سا کاٹ ڈالنا چاہئے کہ وہ مرنے نہ پاوے۔ بدن پر تھوکے تو دونوں ہونٹھ چھید ڈالے اور پیشاب کرے تو عضو تناسل کو کاٹ ڈالے اور براز کرے تو مقعد کو کاٹ ڈالے۔“
(منو سمرتی، ۲۸۱:۸۔۲۸۲)

            ۱۸۔”اگر کوئی انتیج (چانڈال یا انتہائی شودر) کسی دوئج کو مارے تو جس عضو سے وہ مارتا ہے اسکا وہ عضو کاٹ ڈالنا چاہئے۔یہ منو کا قانون ہے۔  ۔ “(منو سمرتی، ۲۷۹: ۸)

            ۱۹۔ ”اگر وہ (دوئج کے) بال پکڑے تو اسکے دونوں ہاتھ کاٹ ڈالے۔ اگر وہ پاؤں ، داڑھی، گردن، یا خصیوں کو پکڑے۔ تو بھی اسکے دونوں ہاتھ کاٹ ڈالنے چاہئے، یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ اسکو تکلیف ہو گی۔“(منو سمرتی، ۲۸۳: ۸)

            ۲۰۔”اگر شودر کسی آریہ عورت کے ساتھ مجرمانہ مجامعت کرے تو اسکے عضو تناسل کو کاٹ ڈالا جائے اور اسکی تمام ملکیت ضبط کر  لی جائے۔” (گوتم دھرم شاستر،            ۱۲:۲)۔ واضح ہو کہ اگر برہمن یہی عمل کسی شودر عورت کے ساتھ کرے تو اسکی یہ سزا نہیں ہے۔

            ۲۱۔ ”اگر شودر ہاتھ یا لاٹھی سے مارے تو اسکا ہاتھ کاٹ دیا جاوے۔ اگر لات مارے تو اسکا پاؤں کاٹ دینا چاہئے۔“ (منو سمرتی، ۲۸۰: ۸)

            ۲۲۔ “جو ہنسا اس دنیا میں وید کے حکم کے موافق ہے اسکو ہنسا یعنی جان کشی (جان کا مارنا) نہ جاننا چاہیے کیونکہ وید  ہی سے دھرم نکلا ہے۔”(منو سمرتی، ۵:۴۴                )

            ۲۳۔ ”برہمن جب چاہے غلام شودر کا مال و دولت چھین لے۔ کچھ تذبذب نہ کرے۔ کیونکہ شودر کے لیے مال جمع کرنا ممنوع ہے ۔ وہ جو دولت فراہم کرے اس دولت کا مالک اسکا سوامی ہے۔  “(منو سمرتی، ۴۱۷: ۸)

              ۲۴۔”شودر سمرتھ بھی ہو مگر دولت جمع نہ کرے کیونکہ شودر دولت پا کر براہمن ہی کو تکلیف دیتا ہے۔” (منو سمرتی، ۱۰:۱۲۹)

            ۲۵۔ ”شودر کے لیے دوئجوں کا کوئی دھرم نہیں ہے۔ انکو دوئجوں کے سنسکاروں کی بھی اجازت نہیں ہے۔ وہ دھرم سے بالکل دور رہیں۔“ (منو سمرتی، ۱۲۶: ۱۰)

            ۲۶۔”شودروں کو ……وید منتروں کے پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہی انکے لئے تعریف کی بات ہے۔“(منو سمرتی، ۱۲۷: ۱۰)

۲۷۔ “اب اگر کوئی شودر ارادتاً ویدوں کا پاٹھ سنُ لے تو اسکے کانون کو پگھلے ہوئے ٹین یا لاکھ سے بھر دیا جائے۔ “(گوتم دھرم شاستر، ۲:۴  )

یہ محض نظری بات نہیں ہے بلکہ”والمیکی رامائن”۔(دیکھو آخری حصہ ‘اُتۤر کانڈ’) کےمطابق بھگوان شری رامچندر جی نے ‘شمبوک’ کو خود اپنے ہاتھوں صرف اس جرم میں ذبح کردیا تھا کہ اس نے آڑ میں چُھپ کر ویدوں کا پاٹھ سن لیا تھا ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان احکام پر سختی سےعمل ہوتا تھا۔  چنانچہ آگے دیکھیے:

۲۸۔ “اگر شودر ویدوں کی عبارات کو پڑھے تو اسکی زبان کاٹ ڈالی جائے۔” (گوتم دھرم شاستر،۱۲:۵)

            ۲۹۔”اگر شودر (ویدوں کی) ان  عبارتوں کو یاد کرے تو اسکے جسم کو دو ٹکڑوں میں کاٹ دیا  جائے۔”(گوتم دھرم شاستر، ۱۲:۶)

            ۳۰۔ ”شودر غلامی سے خواہ آزاد بھی ہو جائے مگر وہ خدمت خلق کے کام سے نہیں چھوٹ سکتا کیونکہ برہما نے اسکو پیدا ہی اس کام کیلئے کیا ہے۔” (منو سمرتی، ۴۱۴: ۸)

            ۳۱۔”۔۔۔براہمن اور کشتری اور ویشیہ کی سیوا شودروں سے کر ائے۔” (منو سمرتی، ۸:۴۱۰)

              ۳۲۔”عورت کے ساتھ بھوجن نہ کرنا اور جس وقت عورت کھاتی ہو یا چھینکتی ہو یا جما ہی لیتی ہو یا سکھ سے بیٹھی ہو تو اسکو نہ دیکھنا چاہئے۔” (منو سمرتی، ۴:۴۳)

            ۳۳۔”عورت نا بالغ ہو یا جوان یا بڈھی ہو۔ گھر میں کوئی کام خود مختاری سے نہ کرے۔” (منو سمرتی، ۵:۱۴۷)

            ۳۴۔ “عورت لڑکپن میں اپنے باپ کے اختیار میں رہے اور جوانی میں اپنے شوہر کے اختیار میں اور بعد وفات شوہر کے اپنے بیٹوں کے اختیار میں رہے۔ خود مختار ہو کر کبھی نہ رہے (۳: ۹)۔۔۔۔ کیونکہ عورتیں خود مختار ہونے کے لائق نہیں ہیں۔”(منو سمرتی،   ۵:۱۴۸)

            اونچ نیچ کے اس ظالمانہ نظام کی جڑیں ویدک دھرم یا ہندو مذہب میں  اتنی گہری ہیں کہ اسکے بغیر اس دھرم کی ساری عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے۔ اس نظام کو ہم ایک سماجی برائی کہہ کر نظر انداز یوں نہیں کر سکتے کہ اسکا مخرج  برہما خود ہے۔  اس بےرحم نظام نے مذہبی اصولوں کے برخلاف نہیں بلکہ عین انکے سبب  رواج پایا۔”گیتا” میں شری کرشن ذات پات کے نظام کی توثیق  و تائید ان الفاظ میں کرتے ہیں:

            ۱۔”مختلف صفات اور اعمال کی تقسیم کی بناء پر چار ذاتوں کا ظہور مجھ ہی سے ہوا۔ مجھے انکا موجد سمجھ، گو میں غیر متحرک اور ختم نہ ہونے والا ہوں۔” (گیتا،۱۳: ۴)

            ۲۔”اے پارتھ!جو کوئی میری پناہ میں آتے ہیں خواہ گناہ انکی گھٹی میں کیوں نہ ہو اور خواہ وہ عورت ہو، ویشیا (طوائف) ہو یا شودر، وہ اعلیٰ مراتب کو پہنچتے ہیں۔”(گیتا، ۳۲: ۹)۔ خیال فرمائیں کہ اس فرمان ِکرشن میں عورت ، طوائف اور شودر کو ایک جیسا غلیظ مانا گیا ہے۔

            ۳۔”اے دشمنوں کو خوفزدہ کرنے والے!برہمن، کشتریہ، ویشیہ اور شودر کے فرائض کو اپنی فطرت سے پیداشدہ خواص کے بموجب تقسیم کر دیا گیا……خدمت کرنا شودر کا فطری فرض ہے…… جو فرائض پیدائش کی بنا پر متعین ہوئے ہوں اگر ان میں کوئی خرابی بھی ہو تو انکو ترک نہیں کرنا چاہئے۔”(گیتا، ۴۸۔۴۱: ۱۸)

            اب ذرا ایک نظر تمام انسانوں کی ایک ہی اصل  (uni-origin) اور انکی مساوی حیثیت کے متعلق قرآن کے ارشادات بھی دیکھتے چلیے جو نہ صرف مردوزن بلکہ تمام انسانوں کے درمیان عدم مساوات کی جڑ کاٹ دیتا ہے اور انکو برابر عزت و احترام کا مستحق قرار دیتا ہے:

            ۱۔اے لوگو! ڈرتے رہو اپنے رب سے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور اُسی سے پیدا کیا اُسکا جوڑا اور پھیلائے اُن دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں۔ (النساء:۱)۔

واضح ہو کہ ایک ہی مؤنث جان (یعنی نفس ) سے نَر اور مادہ پیدا کئے۔ اور ان سے لا تعداد مردو زن پھیلا دیے۔ قرآن کے مطابق آدم سے حوا کو پیدا نہیں کیا گیا۔ بلکہ ایک ‘مؤنث نفس’  سےاولین انسان اور اسکا جوڑا بنایا گیا ۔ قرآنی بیان میں “مذکر” کی تقدیم اور “مؤنث ” کی تاخیر کا تصور غیر موجود ہے، بلکہ جس ایک نفس سے ان دونوں کو پیدا کیا گیا وہ “مؤنث” ہے (خلق منھا زوجھا، النساء: ۱، یعنی  ‘پیدا کیا اس مؤنث سے اسکا مذکرجوڑا’، نہ کہ خلق منہ زوجتہٗ) ۔ قرآن میں لفظ حوا سرے سے آیا ہی نہیں۔ یہ آدم کی پسلی سے حوا کو پیدا کرنے کا عقیدہ یہودیوں کی بائبل میں ہے ، قرآن میں نہیں، جسکو افسوس نادانی سے تفسیر کے ذریعے مسلمانوں میں پھیلا دیا گیا۔  چنانچہ عورت کی پیدائشی تحقیر کا تصور جو ہندو دھرم (یا بائبل ) میں ہےقرآن میں موجود ہی نہیں۔ چونکہ اسی  متحد الاصل جوڑے سے جملہ نسل انسانی  پھیلائی گئی، اسلیے پیدائشی شرافت یا رذالت کا تصور قرآن کے لئے اجنبی ہے۔

            ۲۔اے لوگو! بیشک ہم نے تمکو پیدا  کیا ایک نَر اور ایک مادہ سے اور بنائے تمھارے گروہ اور قبیلے تا کہ آپس کی پہچان ہو۔ یقیناً اللہ کے نزدیک بڑی عزت کا مستحق وہی ہے جو سب سے زیادہ خداسے ڈرنے والا ہے، اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔ (الحجرات: ۱۳)

            ۳۔اور جو جیسی کمائی کریگا وہ اسی کے ذمے پڑیگی، اور بوجھ نہ اٹھائیگا ایک شخص دوسرے کا۔(الانعام: ۱۶۴)

            ۴۔ سو جس نے کی ذرہ برابر بھلائی وہ دیکھ لیگا اُسے اور جس نے کی ذرہ برابر بُرائی وہ دیکھ لیگا اُسے (قیامت کے دن)۔  (الزلزال:۸۔۷)

رسول اکرم  ﷺ نے ان آیاتِ قرآنی کی عملی تصدیق اپنے آخری خطبۂ حج میں یہ کہہ کر کی کہ ”حسب و نسب کے تمام امتیازات میرے ان قدموں کے نیچے ہیں“ (اور یہ کہتے ہوئے آپؐ نے اپنے قدموں کو روندا)۔ آپ  ﷺ نے مزید تاکید کی کہ ”کسی عربی کوعجمی پراور کسی عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پرکوئی فضیلت حا صل نہیں، سوائے تقویٰ کی بنیاد کے“۔جان لو کہ ”تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے“۔ (صحیح الالبانی)

اسلام میں فضیلت کی بنیاد محض تقویٰ (برہمچریہ) ہے، مگر آریہ دھرم میں ‘تعظیم’ برہمن کے علاوہ اورکس کے لیے ہے اس  موضوع سے “یجر وید” کا  تقریباً پورا سولھواں ادھیائے بھرا ہوا ہے، جس میں چند مثالیں کچھ اسطرح  کی بھی ہیں:

“دشمنوں کے رلا دینے والے پیدل فوج کے مالک کے لئے تعظیم۔ کمان کو پورے طور پر کھینچ کر دوڑنے والے کے لئے تعظیم ۔۔۔ فتح کرنے والے کے لئے تعظیم۔ ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی فوج کے مالک کے لئے تعظیم۔ شمشیر زن بہادر کے لئے تعظیم۔ چوروں کے مالک کے لئے تعظیم۔ چل پھر کر چوری کرنے والے گٹھ کترے کے لئے تعظیم۔ جنگلوں کے مالک کے لئے تعظیم۔ تلوار رکھنے والے۔ تیر انداز ڈاکوؤں کے مالک کے لئے تعظیم۔ مسلح مار دینے والے۔ خفیہ چوروں کے مالک کے لئے تعظیم۔ خنجر رکھنے والے۔ رات کو پھرنے والے۔ سیندھ لگانے والے چوروں کے مالک کے لئے تعظیم۔ ۔۔۔سب طرف سے زخمی کرنے والے اور قتل کرنے والے آپ کے لئے تعظیم۔ اچھے لشکروں کے ساتھ تم تباہ کرنے والے کے لئے تعظیم۔۔۔۔عیاروں کے لئے اور عیاروں کے مالک آپ کے لئے تعظیم۔۔۔۔آگے بڑھ کر مارنے والے اور دور کے دشمنوں کو مارنے والے کے لئے تعظیم۔ مارنے والے اور کثرت سے مارنے والے کے لئے تعظیم۔”( یجر وید، ۱۶: ۱۹۔۲۴  اور۴۰ ۔ع ح و)

            چنانچہ اگر دو باتیں ذہن میں رکھی جائیں کہ “گوتم دھرم شاستر”، “منوسمرتی”، “گیتا” اور “وید” جیسے گرنتھ قرآن سے بہت پرانے ہیں اور دوسر ے یہ کہ ہتھیارسازی، تشدد، خونریزی، استحصال، نسل پرستی  (racism)،  انسان و حیوان کی قربانی اور ظلم و سفاکیت کی روایت کی جڑیں پراچین (قدیم)  بھارتی  دھرم اور  کلچر میں گہری اتری ہوئی ہیں تو معمولی شُدبُد کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ دنگوں، سیناؤں، بربریت، زندہ جلانے اور اذیت پہنچانے کا سر چشمہ انہی پراچین مقدس کتابوں کے منتر اور اشلوک ہیں، نہ کہ قرآن کی کوئی چوبیس آیات۔ یہ اسلئے کہ قرآن کے نزول سے پہلے اس پر عمل ممکن نہیں۔ اگر کوئی مغربی مستشرق یا غیر مسلم اسکالر (جو قرآن کو منزل من اللہ نہیں مانتا) ویدوں اور قرآن کا موازنہ کرنے بیٹھ جائے تو ان چوبیس آیات کے متعلق یہ نتیجہ نکالے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ قرآن پر ویدوں کا ہلکا سا اثر ہے۔آریہ ورت میں شر، فساد،بت پرستی اور ہنسا قرآن سے ہزاروں برس پہلے سے موجود تھی اور یہاں سے نکل کرکل ُ دنیا میں پھیل چکی تھی، جسکا سد باب کرنے اور اپنا بچاؤ کرنیکے لئے ان قرآنی آیات کا نزول ہوا۔اور جب تک ایکیشور واد اور ایکیشور وادیوں کے جانی دشمن موجود رہیں گے ان آیات کا relevance بھی باقی رہیگا۔

            اخراج کا مطالبہ کرنے والوں میں سے ایک شخص آنجہانی گری راج کے بیان کا یہ پہلو امید افزا تھا کہ وہ اپنے گرنتھوں کی اصلاح کیلئے تیار ہیں، لیکن اِسکو اُنھوں نے قرآنی آیات کے اخراج کے ساتھ مشروط کر کے زیادتی کی ۔ انکو تو اپنے گرنتھوں کی اصلاح کرنا ہی چاہیے اسلئے کہ تمام ودیائیں بقول پنڈت سرسوتی انہی سے نکلی اور دنیا میں پھیلی ہیں۔ اگر آپ ہنسا، نسل پرستی، اور بھید بھاؤکے ”ایک ارب چھیانوے کروڑ کئی لاکھ اور کئی ہزار برس“ پرانے سوت (source) کو ہی بند کر دیں گے تو رفتہ رفتہ پوری دنیا سے یہ آپ سے آپ مٹ جائیگا۔ اور جب جارحیت نہیں رہیگی تو ان سے بچاؤکی آیات قرآن میں رہیں یا نہ رہیں انکا کوئی استعمال ہی نہیں ہو گا۔ مسلمانوں کی مشکل یہ ہے وہ اگر چاہیں بھی تو قرآن سے ایک حرف نہیں نکال سکتے، نہ اسمیں ایک حرف بڑھا سکتے ہیں، اگر کوشش بھی کریں تو کامیاب نہیں ہو سکتے ،کہ انکے عقیدے کے مطابق یہ رشیوں منیوں کے ملفوظات نہیں بلکہ اِیش بانی  (کلام الٰہی) ہے جسکی حفاظت کا ذمہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ یہ ایشور نے خوداپنے اوپر لیا ہے۔ بفرض محال، اگر ہندوستانی مسلمان آپکی بات مان بھی لیں تو باقی دنیا کے مسلمان تو نہیں مانیں گے۔ مزید یہ کہ کل آپ کوئی دوسرا اور پرسوں تیسرا مطالبہ لیکر کھڑے ہو جائیں گے۔اور یہ تان یہیں پر آکر ٹوٹے گی کہ مسلمان پہلے “محمدی ھندو” ہو جائیں پھر پورے ہندو۔ اسلئے اسطرح کا مطالبہ فضول ہے۔

            علاوہ ازیں، اس بظاہرمعصوم پیشکش میں دام بھی ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک اژدہا گئو ماتا سے کہے کہ   ”ہے ماتا!آپ تو پوتر ہیں، پوجیہ ہیں، ہماری ماتا ہیں، پھر یہ آپ کے سر پر سینگ کیوں؟ وہ بھی دودو؟ سینگ تو ہنسا کا پرتیک (مظہر) ہیں، ممتا کی دیوی کے ٹھیک سر کے اوپر دونوکیلے، ڈراؤنے سینگوں کا کیا کام؟آپ اگر ان سینگوں کو توڑ ڈالیں تو میں بھی آپکا بھکت ہوجاؤں، اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ میری بات مان لیں تو میں بھی اپنا کس بل نکال سیدھا ہو جاؤں،آپکو جکڑنے اورنگلنے کا وِچاربھی دل میں نہ لاؤں “۔فرض کیجئے یہ کہہ کر اژدہا واقعی سیدھا ہو کر شرافت سے لیٹ جائے۔ گائے بیچاری سمجھے کہ یہ اب سدھر گیا تو میں بھی اپنے سینگ توڑ ڈالوں۔ وہ جا کر اپنے سینگ پتھر پر دے مارے۔ تو اسکے نتیجے میں صرف اتنا ہو گا کہ گائے کے سینگ تو کبھی واپس آئیں گے نہیں، البتہ اژدہے کے کس بل ایک لمحے میں واپس آ جائیں گے، وہ بے بس گائے کو آن واحد میں جکڑ کر اسکی ہڈی پسلی توڑ دیگا اور نگل لےگا۔ یہ اژدہا اسلام کی گائے کو بھی وہیں پہنچانا چاہتا ہے جہاں ماضی میں بدھ مت، جین مت اور سکھ مت کو پہنچا چکا ہے،یعنی اپنے پیٹ میں۔یہ اسلام کو بھی اپنا شکمی مذہب بنانے پرتلاہے۔ گائے اپنی فطرت سے شریف ہے۔ اسکے سینگ ہیں ضرور، مگروہ خواہ مخواہ سب کو مارتی نہیں پھرتی الا یہ کہ اسکا دماغی توازن خراب ہوگیا ہو۔ وہ ان سینگوں کا استعمال اسی وقت کرتی ہے جب خطرہ ہو۔ قرآن کی یہ آیات گئو ماتا کے سینگ سمان ہیں۔ یہ اسلئے نہیں ہیں کہ مسلمان خواہ مخواہ غیر مسلموں کو مارتے پھریں الا یہ کہ انکا دینی ذہنی توازن خراب ہو جائے، جیسے بعض انتہا پسند گروہوں  کا  بعض ملکوں میں ہو گیا ہے  اور وہ معصوم انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ کر اپنی جہنم اور مسلمانوں کی رسوائی کا سامان کر رہے ہیں۔ ان آیتوں کا استعمال اسی وقت فرض ہے جب مسلمانوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا جائے صرف اس بنیاد پر کہ وہ مسلمان ہیں  انکو قتل کیا جائے، انکے گھراور کاروبار تباہ کئے جائیں، انکی آبادیا ں جلا کر راکھ کر دی جائیں اور جان،مال وعزت کی حفاظت کا جو عہد ان سے کیا گیا ہے اسکو بار بار توڑا جائے۔اور اسی سیاق میں ان آیات کی اطلاقیت قیامت تک باقی رہیگی۔ جس طرح تیز، نکیلے، شان سے اوپر اٹھے ہوئے سینگوں کی موجودگی کے باوجود ہندو بھائیوں کیلئے گئو ماتا ممتا کی دیوی اور پوجیہ (قابل پرستش) ہی رہتی ہیں اسی طرح ان آیات کی موجودگی کے باوجود قرآن مقدس اور پاک ہی رہتا ہے۔ایشور کے انتم سندیش (آخری پیغام) قرآن میں سے کسی آیت کو نکالنے کا مطالبہ کرنا اتنا ہی احمقانہ ہے جتنا گئو ماتا کو مقدس ماننے کےلیے پہلے انکے سینگ کٹوا نے کا مطالبہ کرنا۔

            مسلمانوں کو ان آیات کے معاملے میں شرمندہ ہونے یا دفاعی پوزیشن اختیار کرنیکی ضرورت نہیں بلکہ معترضین پر یہ جتلانے کی ضرورت ہے کہ وہ پہلے خود اپنے گھر کو درست کریں اور پچھلے صفحات میں ہم ثابت کرچکے ہیں کہ انکے اپنے گھر کی حالت کیسی شرمناک ہے۔اس معاملے میں انکو پریشان ہونیکی ضرورت یوں بھی نہیں کہ انھیں خدا نے اسلام اور قرآن کی”حفاظت” کیلئے پیدا نہیں کیا، بلکہ اسلام اور قرآن کو انکی ہدایت کیلئے نازل کیا ہے۔ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اس نے خود اپنے اوپر عائد کیا ہے اور اسی سبب وہ ابتک محفوظ بھی ہے۔ ورنہ دوسروں کا کیا ذکر، خود مسلمان اسکو اپنے اپنے مسالک (سنیت، شیعیت، وہابیت، دیوبندیت وغیرہ) صحیح ثابت کرنے کیلئے بدل چکے ہوتے (معنوی تحریف کے مرتکب تو بہرحال وہ پھر بھی ہوتے ہیں)۔ اور اسلام کو کوئی خطرہ یوں درپیش نہیں ہوسکتا کہ یہ دراصل کائنات اور انسان کی داخلی فطرت کا نام ہے۔ یا بالفاظ دیگر جن الٰہی اصولوں پر کائنات کا کل کاروبار جاری و ساری ہے اسی کو قرآنی اصطلاح میں اسلام کہتے ہیں اور اسکو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔ خطرہ دراصل آپکے مسالک کو لاحق ہوتا ہے نہ کہ اسلام کو، اور ان مسالک کو (جنکی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں) خدا اور اسکے رسول  ﷺ نے شروع نہیں کیا تھا، نہ شروع کرنیکی ہدایت دی تھی۔ بلکہ فرقہ سازی  قرآن کے نزدیک  شرک  ہے۔ اس فرق کو ملحوظ رکھنے سے کہ”آپ قرآن کی خدمت یا حفاظت پر مامور نہیں ہیں بلکہ وہ آپکی ہدایت کیلئے اترا ہے“ دو مختلف عملی رویے مرتب ہوتے ہیں۔ بصورت اول، آپ قرآن پر عمل پیرا ہونے کے بجائے اسکی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں بے نتیجہ نچھاور کرتے رہیں گے۔ اور بصورت ثانی، قرآن پر عمل پیرا ہوکر اپنی دنیا اور عاقبت سنوارسکیں گے۔ قرآن اگر آپکی تہذیب و ثقافت کی رگوں میں خون بن کر دوڑے تو محفوظ رہیگا، آپکے خون سرخ کے نالیوں میں بہنے سے نہیں۔      

————————————————
نوٹ: اس مضمون میں وید منتروں کے ترجمے کے لیے دیانند سرسوتی کے “یجر وید بھاشیم” کو بنیاد بنایا گیاہے، لیکن وضاحت کی غرض سے درج ذیل تراجم سے بھی مدد لی گئی ہے۔:

“یجر وید کا اردو ترجمہ”، عبدالحق ودیارتھی، 19271

 “The Yajur Veda,” English translation by Devi Chand M. A., 1959۔2

3″یجر وید”، مترجم آشو رام آریہ (اردو ترجمہ)، 1984

4 اتھرو وید سنہتا، (ہندی ترجمہ)،  مترجم شری رام شرما آچاریہ، 2005

The Hymns of the Atharva Veda, English translation by Griffith, 18965۔

Atharva Veda Samhita, English translation by W. D. Whitney, 1905۔.6

“Gautama Dharmasurta” in “Dharmasutras” by Patrick Olivelle, New York, 19997۔

8۔”منو سمرتی یعنی  مانو دھرم شاستر بھرگ سنہتا، سنسکرت مع ترجمۂ اردو ، “مرتبۂ لالہ سوامی دیال صاحب، مطبع نولکشور، کانپور، 1908، مولانا آزاد لائبریری، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی۔

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: